غزل
احمد مشتاق
مِل ہی جائے گا کبھی دِل کو یقیں رہتا ہے
وہ اِسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام تِرے
اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے
روز مِلنے پہ بھی لگتا ہے کہ جُگ بِیت گئے...