باقرزیدی

  1. طارق شاہ

    باؔقر زیدی :::::کُچھ نئے حرف لِکھوں، کوئی نئی بات کروں ::::: Baquer Zaidi

    غزل کُچھ نئے حرف لِکھوں، کوئی نئی بات کروں کُچھ تو ہو پاس مِرے جس سے مباہات کروں اجنبیّت! تِرے ماحول میں دَم گُھٹتا ہے کوئی ایسا بھی مِلے، جس سے کوئی بات کروں کُچھ تو مجھ سے بھی مِلے میرے تمدّن کا سُراغ ترک مَیں کیوں روِشِ پاسِ روایات کروں گردِشِ وقت، کہ پُوچھے ہے زمانے کا مزاج! سامنے...
  2. طارق شاہ

    باقر زیدی :::: دل پہ کرتے ہیں دماغوں پہ اثر کرتے ہیں - Baqar Zaidi

    غزل (2) باقرزیدی دل پہ کرتے ہیں دماغوں پہ اثر کرتے ہیں ہم عجب لوگ ہیں ذہنوں میں سفر کرتے ہیں جب سراپے پہ کہیں اُن کی نظر کرتے ہیں میر صاحب کی طرح عمْربسر کرتے ہیں بندشیں ہم کو کسی حال گوارا ہی نہیں ہم تو وہ لوگ ہیں دِیوار کو در کرتے ہیں وقت کی تیز خرامی ہمیں کیا روکے گی! جُنبشِ کلک سے...
  3. طارق شاہ

    باقر زیدی :::: بالا نشینِ مسندِ دربار ہم نہ تھے Baqar Zaidi

    غزل (1) باقرزیدی بالا نشینِ مسندِ دربار ہم نہ تھے شاہوں کی سلطنت کے وفادار ہم نہ تھے نقدِ سُخن تھے حرفِ سُبکبار ہم نہ تھے غالب کے قدرداں تھے طرفدار ہم نہ تھے ایسا نہیں ہُوا کہ سرِ دار ہم نہ تھے مانا کہ اُس قبیلے کے سردار ہم نہ تھے وہ حُبِ ذات جس نے ڈبویا ہے قوم کو اُس لشکرِ اَنا کے...
  4. طارق شاہ

    باقر زیدی -- یہ آشنا کا ہے، نہ کسی اجنبی کا ہے

    غزلِ باقرزیدی یہ آشنا کا ہے، نہ کسی اجنبی کا ہے جو دل میں گھر بناتا ہے، دل تو اُسی کا ہے میرے ہُنر کا ہے، نہ مِری شاعری کا ہے غزلوں سے میری، شہرمیں چرچا اُسی کا ہے بدلے حَسِیں، تو عشق کی دنیا بدل گئی جو دل کسی کا ہوتا تھا، اب ہر کسی کا ہے کیوں ڈھونڈتے ہیں لوگ کسی اور راہ کو سیدھا تو ایک...
  5. طارق شاہ

    باقرزیدی --- قد قیامت، بدن بلا کا ہے

    غزل باقرزیدی قد قیامت، بدن بلا کا ہے رزقِ شعر وسُخن بلا کا ہے قندِ لب کا مزہ ہے باتوں میں یار شیریں دَہَن بلا کا ہے ساری رنگینیاں غزل کی نِثار اُس کا سادہ سُخن بلا کا ہے سب اُسی سے ہے بزْم آرائی آپ وہ انجُمن بلا کا ہے بُت بہت ہیں تو کیا بفضلِ خُدا دل بھی تو برہمن بلا کا ہے ہم بھی...
  6. طارق شاہ

    غزلِ باقِر زیدی " جُزحُسن کسی شے کی تمنّا نہیں کرتے "

    غزلِ باقِرزیدی جُزحُسن کسی شے کی تمنّا نہیں کرتے ہم اہلِ نظر اور تماشہ نہیں کرتے ہر کام میں ہم ہاتھ بھی ڈالا نہیں کرتے کرنے پہ جو آجائیں، تو کیا نہیں کرتے وہ دستِ طلب کیسے بڑھاتے کہیں اپنا جو قرض تو دیتے ہیں تقاضہ نہیں کرتے ہے شہرمیں وہ خوف، کہ لوٹ آتے ہیں دن سے پھر گھر سے نکلنے...
Top