افتاد

  1. عباس رضا

    انور مسعود کی نظم ”افتاد“

    بہت سے لوگ رستے میں کھڑے تھے کسی کے تین مصرعے گر پڑے تھے وہاں اک بھیڑ تھی اہلِ سخن کی سُنی میں نے بھی اِک اِک بات اُن کی چِھڑی تھی ایک بحثِ بے کرانہ فسانہ در فسانہ در فسانہ کوئی بولا یہ صنفِ ماہیا ہے بڑی پُرسوز سی طرزِ ادا ہے دُھواں اٹھتا ہو جیسے چُوبِ تر سے پگھل جاتے ہیں دل اس کے اثر سے...
Top