عذر پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوش انجام ابھی
سعی پیہم ہے ترازوئے کم و کیف حیات
تیری میزاں ہے شمار سحر و شام ابھی
ابر نیساں! یہ تنک بخشی شبنم کب تک
مرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
بادہ گردان عجم وہ ، عربی میری شراب
مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی
خبر اقبال کی لائی...