کوٸی دن گر زنداگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوزِ غم ہاٸے نہانی اور ہے
بارہا دیکھی ہے ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
مرزا غالب
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا
خانہ زادِ ذلف ہیں زنجیر سے بھاگیں کیوں
ہے گرفتار وفا زنداں سے گھبراویں گے کیا
مرزا غالب