You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
ایک مدت کے بعد آج مجھے
ہم زباں ماننے لگے ہیں لوگ
پہلے روتے تھے، چونکتے ہیں اب
مجھ کو پہچاننے لگے ہیں لوگ
-
یہ بھی کیا چال ہے ہر گام پہ محشر کا گماں
پائلیں بجتی ہیں لہنگے کی کماں تنتی ہے
یوں چلو جیسے اترتی ہے کہستاں سے ہوا
جیسے رنگوں کے تموج سے کرن بنتی ہے
-
وہ سبز کھیت کے اس پار ایک چٹان کے پاس
کڑکتی دھوپ میں بیٹھی ہے ایک چرواہی
پرے چٹان سے پگڈنڈیوں کے جالوں میں
بھٹکتا پھرتا ہے وہ ایک نوجوان راہی
-
وہ دور جھیل کے پانی میں تیرتا ہے چاند
پہاڑیوں کے اندھیروں پہ نور چھانے لگا
وہ ایک کھوہ میں اک بد نصیب چرواہا
بھگو کے آنسوؤں میں ایک گیت گانے لگا
-
وہ پانی بھرنے چلی اک جوان پنساری
وہ گورے ٹخنوں پہ پازیب چھنچھناتی ہے
غضب غضب کہ مرے دل کی سرد راکھ سے پھر
کسی کی تپتی جوانی کی آنچ آتی ہے
-
بوڑھے ماں باپ بلکتے ہوئے گھر کو پلٹے
چونک اٹھے ہیں وہ شہنائی بجانے والے
اف بچھڑتی ہوئی دوشیزہ کے نالوں کا اثر
ڈولتے جاتے ہیں ڈولی کے اٹھانے والے
-
برس کے چھٹ گئے بادل ہوائیں گاتی ہیں
گرجتے نالوں میں چرواہیاں نہاتی ہیں
وہ نیلی دھوئی ہوئی گھاٹیوں سے دو گونجیں
کسی کو دکھ بھری آواز میں بلاتی ہیں
-
باجرے کی فصل سے چڑیاں اڑانے کے لئے
ایک دوشیزہ کھڑی ہے کنکروں کے ڈھیر پر
وہ جھکی وہ ایک پتھر سنسنایا، وہ گِرا
کٹ گئے ہیں اس کے جھٹکے سے مرے قلب و جگر
-
بات کہنے کا جو ڈھب ہو تو ہزاروں باتیں
ایک ہی بات میں کہہ جاتے ہیں کہنے والے
لیکن اِن کے لئے ہر لفظ کا مفہوم ہے ایک
کتنے بے درد ہیں اس شہر کے رہنے والے
-
آنکھ کھل جاتی ہے جب رات کو سوتے سوتے
کتنی سونی نظر آتی ہے گزر گاہ حیات
ذہن و وجدان میں یوں فاصلے تن جاتے ہیں
شام کی بات بھی لگتی ہے بہت دور کی بات
-
آنسوؤں میں بھگو کے آنکھوں کو
دیکھتے ہو تو خاک دیکھو گے
آئینے کو ذرا سا نم کر دو
پیرہن چاک چاک دیکھو گے
-
اداس چاند نے بدلی کی آڑ میں ہو کر
کنارے ملگجے بادل کے کر دیئے روشن
شب فراق میں جیسے تصور رخ دوست
دل حزیں کے اندھیرے میں روشنی کی کرن
-
آج پنگھٹ پہ یہ گاتا ہوا کون آ نکلا
لڑکیاں گاگریں بھرتی ہوئی گھبرا سی گئیں
اوڑھنی سر پہ جما کر وہ صبوحی اٹھی
انکھڑیاں چار ہوئیں جھک گئیں شرما سی گئیں
-
اپنی آواز کی لرزش پہ تو قابو پا لو
پیار کے بول تو ہونٹوں سے نکل جاتے ہیں
اپنے تیور بھی سنبھالو کہ کوئی یہ نہ کہے
دل بدلتے ہیں تو چہرے بھی بدل جاتے ہیں
-
پو پھٹے رینگتے جھرنے پہ یہ کون آیا ہے
بال بکھرے ہوئے لپٹے ہوئے خواب آنکھوں سے
لوٹ لیں تشنگئ زیست نے نیندیں ورنہ
یوں پیاپے نہ برستی مئے ناب آنکھوں سے
-
تری زلفیں ہیں کہ ساون کی گھٹا چھائی ہے
تیرے عارض ہیں کہ پھولوں کو ہنسی آئی ہے
یہ تیرا جسم ہے یا صبح کی شہزادی ہے
ظلمتِ شب سے الجھتی ہوئی انگڑائی ہے
-
تمتماتے ہیں سلگتے ہوئے رخسار ترے
آنکھ بھر کر کوئی دیکھے گا تو جل جائے گا
اتنا سیال ہے یہ پَل کہ گُماں ہوتا ہے
میں ترے جسم کو چھو لوں تو پگھل جائے گا
-
جب چٹانوں سے لپٹتا ہے سمندر کا شباب
دور تک موج کے رونے کی صدا آتی ہے
یک بیک پھر یہی ٹوٹی ہوئی بکھری ہوئی موج
اک نئی موج میں ڈھلنے کو پلٹ جاتی ہے
-
جسے ہر شعر پر دیتے تھے تم داد
وہی رنگیں نوا خونیں نوا ہے
اب ان رنگوں کے نیچے دھیرے دھیرے
لہو کا ایک دریا بہہ رہا ہے
-
حکمت اہل مدرسہ کا غرور
میری وحشت سے دب کے ہار گیا
تیرا گھبرا کے مسکرا دینا
زندگی کے نقاب اتار گیا