غزل
زمیں کے حلقے سے نکلا ، تو چاند پچھتایا
کشش بچھانے لگا ہے ہر اگلا سیّارہ
میں پانیوں کی مُسافر ، وہ آسمانوں کا
کہاں سے ربط بڑھائیں ،کہ درمیاں ہے خلا
بچھڑتے وقت دِلوں کو اگرچہ دُکھ تو ہُوا
کُھلی فضا میں مگر سانس لینا اچھا ہو گا
جو صرف رُوح تھا ، فُرقت میں بھی وصال میں بھی
اُسے بدن کے اثر...
وعدۂ شب پر گُمانِ صِدق سے سوئے نہ ہم
راہ ، اُس پیماں شکن کی رات بھر دیکھا کئے
یاد میں رُخسارِ تابانِ صنم کی رات بھر !
دیدۂ حسرت سے ہم سُوئے قمر دیکھا کئے
اکبر الٰہ آبادی
زیرِ گیسو رُوئے روشن جلوہ گر دیکھا کئے
شانِ حق سے ایک جا شام و سحر دیکھا کئے
صبر کر بیٹھے تھے پہلے ہی سے ہم تو جانِ زار
عِشق نے جو کچھ دِکھایا بے خطر دیکھا کئے
اکبر الٰہ آبادی
غزلِ
ریحان منصُور آنولی
اور کِس کے مُنہ سجے گی داستانِ زندگی
لُطف جب ہے، وہ زباں ہو اور بیانِ زندگی
رنگ دِکھلاتا ہے کیا کیا آسمانِ زندگی
کرکے برگ و گُل سے خالی گُلستانٍ زندگی
کیا سِتم ہے آج وہ بھی درپئے آزار ہیں
ایک مُدٌت سے رہے جو میری جانِ زندگی
کر لِیا اُس دل کے رہزن کو ہی میرِ کارواں
اب...