عدم کی نظم یاد آ گئی۔
شاید عنوان کچھ اس طرح کا تھا۔
"انتظارِ آدم"
آسماں کے شامیانے کے تلے
اک خلا ایسا بھی ہے
جس خلا کی وسعتیں
نوحہ زن ہے روز و شب
آدمی کی دید کو
آدمی نایاب ہے
ٹوٹا ہوا مضراب ہے
ٹوٹے ہوئے مضراب کا
نغمہ بھی ہے شرمندگی
منتظر ہے خود خدا
اور مر گیا ہے آدمی
اٹھو یہ آسامی بھریں
اس نظم کے بہت سے بند تھے۔ مجھے کچھ کچھ یاد ہے ابھی تک۔
نصاب میں عدم کہاں! عبدالحمید عدم کو ایک دور میں بہت پڑھا کرتی تھی۔ میٹرک اور اس کے بعد بھی۔ ان کے کئی مجموعے میرے پاس تھے۔ بط کے اور نجانے کون کون سے۔ پھر کتابیں گم ہوتی گئیں۔ پڑھتے پڑھتے بہت سی نظمیں اور رباعیاں، اشعار یاد بھی ہو گئے تھے، جن میں شیخ صاحب خدا خدا کیجیے، آج بھی یاد ہے۔ اور یہ اوپر والی نظم اولاد آدم کے کئی بند یاد ہیں۔ اس نظم کے بہت سے بند تھے۔
"آسماں کے شامیانے کے تلے " سے ہر بند شروع ہوتا تھا۔
آسماں کے شامیانے کے تلے
اور زمیں سے کچھ بلند
زندگی ہے ارجمند
فلسفہ اک راگنی
راگنی لبریز قند
قند معمور شراب
زہر خالی از گزند
تم بھی ہو کچھ باخبر
ہم بھی ہیں کچھ ہوشمند
پاؤں سورج پر دھریں
۔۔۔
شاید عنوان کچھ اس طرح کا تھا۔
"انتظارِ آدم"
آسماں کے شامیانے کے تلے
اک خلا ایسا بھی ہے
جس خلا کی وسعتیں
نوحہ زن ہے روز و شب
آدمی کی دید کو
آدمی نایاب ہے
ٹوٹا ہوا مضراب ہے
ٹوٹے ہوئے مضراب کا
نغمہ بھی ہے شرمندگی
منتظر ہے خود خدا
اور مر گیا ہے آدمی
اٹھو یہ آسامی بھریں
اس نظم کے بہت سے بند تھے۔ مجھے کچھ کچھ یاد ہے ابھی تک۔