ہمیں تو یاد پڑتا ہے کہ نواز شریف اسیری کے دوران رعایت طلب کرکے علاج کے لئے گئے تھے۔ اور واپس آنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ اپنا کیا ہوا وعدہ نبھانے میں اُنہیں کیا عار ہے بھلا؟
سکے کے دوسرے رخ کو بھی دیکھنے میں کوئی عار نہیں ہے۔ عمران خان صاحب نے جانے دیا تو اب لے کر بھی آئیں۔ مجرم کہے کہ میرے پیٹ میں درد ہے مجھے جیل سے نکالو تو یہ حکومت وقت کا کام ہے اسے مینیج کرنا۔ مجرم تو پہلے ہی مجرم ہے اس کے وعدے کا کیا اعتبار؟ ایک جرم اور سہی۔ اب یہی اصول مشرف پہ بھی لاگو ہوتا ہے لیکن وہاں حکومت اسے بچانے کے لیے میدان میں اتر پڑتی ہے۔ وعدے تو عمران خان نے بھی بہت کیے تھے، اب کس پہ اعتبار کریں؟
ہو سکتا یے سلیکٹ کرنے والوں نے ہی عمران خان کو مجبور کیا ہو کہ نواز شریف کو جانے دیا جائے۔ سلیکٹرز کی بات نہ ماننا کم و بیش کفر کے زمرے میں تو آتا ہو گا۔