ایچ اے خان لئیق احمد
آپ دونوں احباب کی نظر سے صحیح مسلم کی یہ حدیث شاید نہیں گزری۔
رسالت مآب محسن انسانیت حضرت محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"قیا مت کے دن اللہ تعالی بندے سے فرمائے گا---اےابن آدم! میں بیمار ہوا تم نے میری عیادت نہیں کی:؛ وہ گبهرا کر عرض کرے گا--- اے میرے رب! تو تو سارے جہاں کا پروردگار ہے،تو کب بیمار تها؟ اور میں تیری عیادت کیسے کرتا ؟
اللہ تعالی فر مائے گا:؛ کیا تجهے معلوم نہیں تها کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے،اسکے باوجود تو نے اسکی مزاج پرسی نہیں کی،اگر تو عیادت کے لئے اسکے پاس جاتا تو مجهے وہاں پاتا-
پهر اللہ تعالی فرمائے گا:؛ اے ابن آدم! میں نے تجه سے کهانا مانگا--لیکن تو نے مجهے کهانا نہیں دیا---بندہ عرض کرے گا، اے رب العالمین ! تو کب بهوکا تها اور میں تجهے کیسے کهانا کهلاتا؟؟
اللہ تعالی فرمائے گا:؛ کیا تجهے یاد نہیں،میرے فلاں بندے نے تجه سے کهانا مانگا تها لیکن تو نے اسے کهانا نہیں کهلایا،،،،اگر تو نے اسکا سوال پورا کیا ہوتا تو آج اسکا ثواب یہاں پاتا
ایچ اے خانلئیق احمد
ہم اس شعر کے مفہوم اور استعارے کو کسی اور نکتے سے دیکھ رہے تھے۔ سنتے ہیں کہ خدا دلوں میں بستا ہے اور انسان بھی خدا صفت ہوتے ہیں۔ یہاں بھیس کو ہم استعارے کے طور پر لے رہے تھے۔ باقی شاعر نے کس خیال سے لکھا ہم نہیں جانتے۔ شاید ہماری ناقص عقل اس خیال تک نہیں پہنچ سکی جہاں تک آپ احباب کی رسائی ہے۔ :) :)
اسی طرح اللہ تعالی فرمائے گا---اے ابن آدم! میں نے تجه سے پانی مانگا لیکن تو نے مجهے پانی نہیں پلایا--
بندہ عرض کرے گا:؛ اے دونوں جہانوں کے پروردگار! تو کب پیاسا تها اور میں کیسے تجهے پانی پلاتا؟؟
اللہ تعالی فرمائے گا:؛ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تها، تو نے اسکی پیاس بجهانے سے انکار کر دیا تها- اگر تونے اسکی پیاس بجهائی ہوتی تو آج اسکا اجرو ثواب یہاں پاتا۔
عبدالقیوم چوہدری صاحب وہ حدیث الحمدللہ پڑھی ہے مگر اس شعر میں موجود الفاظ " خدا، بھیس بدل کے" والے بالکل درست نہیں ہیں اور اس طرح کے مشکوک الفاظ کہنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ انسان کا ایمان ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے
لئیق احمد
اردو اور پنجابی شاعری ایسے بے شمار استعارات سے بهری پڑی ہے۔ شعور رکهنے والے احباب ان استعارات کو بخوبی سمجهتے اور ان پر رائے زنی سے اجتناب کرتے ہیں تاکہ نئی پٹاریاں نا کهل سکیں۔ :)
بھیس بدلنا کیا معنی۔ اللہ کو بھیس بدلنا کیا معنی۔ یہ شرک کی عریاں شکل ہے۔ کوئی دوسرے معنی نہیں ۔ شرک وہ گناہ ہے جس کی معافی نہیں۔ حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے
کوئی استعارہ ایسا جو شرکیہ ہو شعور رکھنے والا استعمال نہ کرے گا۔ چاہے دنیا کا باشعور ترین آدمی ہو چاہے پوری کائنات اگر شرک میں مبتلا ہو۔ ہم مسلم شرک سے مبرا ہیں
حدیث کے الفاظ کہہ رہے ہیں کہ اللہ رب العزت فرمائیں گے میں پیاسا تها، بهوکا تها اور بیمار تها۔ کیا رب تعالیٰ کے لیے ایسی بات کہنا نعوذباللہ شرک میں چلا جائے گا جبکہ وہ ذات باری تعالی ان سب سے مبرا ہے۔
لئیق احمد
شعور رکهنے سے مراد یہ تهی کہ آپ یا مجهے شاعر کے شعر کہتے وقت کی ذہنی، جسمانی یا نفسیاتی کیفیات کا علم نہیں ہے۔ چونکہ ہمیں شعور نہیں تو ہم اپنے شعور کو استعمال کرتے ہوئے اس پر بحث کرنے سے اجتناب کریں کہ یہ کسی کو مشرک یا کافر قرار دینے یا ایمان سے خارج کر دینے والی بات پر منتج ہو سکتا ہے۔