آداب عرض ہے جنابِ اعجاز عبید۔ بہت دنوں بعد ملاقات ہو رہی ہے۔
اس غزل میں ’’بیٹی کی گھر‘‘ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ ’’گَٹھ‘‘ (پنجابی) بمعنی گانٹھ اور گٹھڑی : لفظ تو ہے مگر اس شعر میں جچ نہیں رہا۔ ’’عبث ہی‘‘ کیا مناسب رہے گا؟ کہ ’’عبث‘‘ میں ’’ہی‘‘ کا تاثر تو پہلے سے موجود ہے۔
میرا بات کرنے کا...
آپ کو بہت محنت کرنی پڑے گی۔ لپک آپ کے ہاں موجود ہے۔ اپنے علاقے میں کسی فعال ادبی تنظیم کو جانتے ہیں تو ان کے معمول کے اجلاسوں میں شریک ہوا کریں۔ یہ بہت ضروری ہے۔
ایک ترکیب ’’بیٹی کی گھر‘‘ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ملا والے شعر کا پہلا مصرع بھلا نہیں لگ رہا، ایسا ہی کچھ بے کار کی گٹھ میں ہے۔ دوسرا شعر...
بات وہی ہے جو، یہ فقیر پہلے عرض کر چکا۔ جیسا آپ نے خود کہا ہے کہ آپ بچپن ہی سے شعر کی طرف مائل تھے۔ میرا سوال ہے (جس میں جواب بھی پنہاں ہے) کہ وہ میلان کہاں سے آیا؟ وہ آپ کی ذات کے اندر موجود تھا، جو آپ کو ودیعت کیا گیا تھا۔ جیسے جیسے آپ الفاظ سے شناسا ہوتے گئے، اپنے اس میلان کے مطابق اپنی ذات...
بالکل درست۔
شاعری سیکھنے کی چیز نہیں (نہ آپ کسی غیرشاعر کو شاعر بنا سکتے ہیں)۔ یہ تو اندر سے پھوٹتی ہے آپ اس کو نکھار سنوار سکتے ہیں، اس کے لئے بھی ایک خاص مزاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسے عرفِ عام میں ’’ذوق‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہ بات صرف شاعری پر نہیں ادب کی جملہ اصناف پر لاگو ہوتی ہے۔
کچھ تازہ بولیاں ۔۔۔۔۔
بولی ۔۔۔۔
کتھوں لبھئیے دلاں دا دارُو ۔۔ یار ساڈا زہر ویچدا
بولی ۔۔۔۔
جے توں دل دا روگ مٹاونا ۔۔ یار کولوں زہر چَکھ لَے
بولی ۔۔۔۔
رہیاں سدھراں نہ رہی اچواہی ۔۔ یار کیہڑا زہر دے گیوں
بولی ۔۔۔۔
چنگا کیتو ای جے حال نہیں او پُچھیا ۔۔ اسیں تینوں کیہ دَسدے
۔۔۔۔۔
ایک مصرع سے تو لگتا ہے کہ فعلن فعلن کی تکرار ہے (ایک مصرع میں پندرہ سبب)۔ ناموں والا معاملہ ٹیڑھا ہے، وہ آپ کو پتہ ہی ہے۔
غضنفر نے اس کو چار جڑواں بحروں میں رکھا ہے۔ میں نے جسارت کی اور اسے غضنفر ہی کے تتبع میں بحرِمرغوب کا نام دے دیا۔
آپ روایت کے امین ہیں، آپ کی بات کو زیادہ وزن ملے گا، جو بھی...
یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان دونوں السلام علیکم کی املاء میں فرق کیا ہے؟
”السلام علیکم“ کی ترکیب بالکل، بہرلحاظ درست ہے! بلکہ کامل جملہ ہے۔
معنیٰ: آپ پر سلامتی ہو۔ ”سلام“ کا معنیٰ سلامتی ہے، معرف باللام ہونے سے ”السلام“ بنا۔ علیکم: آپ پر۔
حافظ شیرازی کی غزل ملاحظہ ہو۔۔۔
شماره ٣٧٤: بيا تا گل برافشانيم و مي در ساغر اندازيم
بيا تا گل برافشانيم و مي در ساغر اندازيم
فلک را سقف بشکافيم و طرحي نو دراندازيم
اگر غم لشکر انگيزد که خون عاشقان ريزد
من و ساقي به هم تازيم و بنيادش براندازيم
شراب ارغواني را گلاب اندر قدح ريزيم
نسيم عطرگردان را...