ہمارا مکان
اُس جگہ پر ہے
جہاں دُکھ اور سُکھ کی سرحد ہے
آدھا مکان
سُکھ میں ہے
آدھا مکان
دُکھ کے حصے میں آیا ہے
ہم
ہنستے ہنستے
دُکھ کے حصے میں پہنچ جاتے ہیں
اور
ہماری آنکھو ں سے
آنسو بہنے لگتے ہیں
ہمارا کمرا
دُکھ اور سُکھ میں تقسیم ہوگیا ہے
ہمارا بستر بھی
دو حصوں میں بٹ گیا ہے
وہ
مجھے دُکھ والے...
حرف دَر حرف خواب اُن کا ہے
کیا لکھوں کیا شباب اُن کا ہے
زُلف ، پھر اُس میں پھول ، اُف اَللہ!
رُخ ، رُخِ ماہتاب اُن کا ہے
یہ کہہ کر ستمگر نے زلفوں کو جھٹکا
بہت دن سے دنیا پریشاں نہیں ہے ۔۔!!