بہت خوب۔۔۔۔۔۔!:laugh1::laugh1::laugh1:
میں نےغلطی سے اسے ہی مصرع سمجھا تھا خیر اب وہ عبارت کوحذف کردیتا ہوں
خندہ زن والی بات سمجھ نہیں سکا وضاحت فرمادیں
بقیہ اشکال وہی ہیں کہ الفاظ اوزان کے وسط میں ٹوٹتے ہیں اور جو کہا کہ الفاظ پورے نہیں اترتے تو وہ متحرک اور غیر متحرک ہونےکہ وجہ سے محسوس ہوتا...
ممکن ہیکہ آپ بھی صحیح کہہ رہے ہوں کیوںکہ بندہ اس سلسلے میں اپنے خدا کے سوا کسی کا شاگرد نہیں ہے۔ لیکن اگر ذرا غور کریں تو وزن برابر محسوس ہونگے۔
اس طرف بھی----تو کبھی----بھو---ل کے----آئے-----کوئی
فاعلاتن---------- فَعِلا------ تن--- فَعِ-------لاتن------فعِلن
لفظ تو میں واو اور کے میں ے...
اس طرف بھی تو کبھی بھول کے آئے کوئی
خندہ زن نہ بھی سہی آئے تو گریاں ہی سہی
ہوگئی ان سے مری بات کی حسرت پوری
اگرچہ بات سے انکار کے دوراں ہیں سہی
ہم نہ بدلیں گے چمن تیری طرح، باد صبح!
جوبھی ہیں خوب ہیں، گو دشت میں طوفاں ہی سہی
عشق میں زندگیءَ اھل وفا ہے مستور
اگرچہ دیکھنے میں موت کا ساماں ہی...
سرعت سے پھڑکی نبض ِ جہاں کون ڈس گیا؟
چھائیں گھٹائیں رنج کی توخوں برس گیا
برسا غضب کا خون کہ ہر دل سمٹ گیا
شاید غموں کا سینہ غموں ہی سے پھٹ گیا
ذراتِ گلستان بھی خوں رنگ ہوگئے
گویا چمن کے پھول سبھی سنگ ہوگئے
کلیاں بجھی بجھی تھیں ، گئی رونق چمن
گردن بہ خم تھے لالہ و ریحان و نسترن
تکتے ہی تکتے...
(اہلیان ادب و قلم سے اصلاح کی گزارش ہے ۔ امید ہیکہ حوصلہ افزائی فرمائیں گے)
وہ یقیناً پہچنے والا ہے کوئے یار تک
جس نے طے کرلی مسافت قول سےکردارتک
پہلے رخصت سے عزیمت پھر عزیمت سے سفر
سہل سے دشوار تک ،دشوار سے پر خار تک
پار نکلے یا وہ ڈوبے یہ مقدر ہے مگر
قابل تحسین ہے جوآگیا منجدھار تک
ریت پر...
دونو مصرعوں سے مراد یہ ہیکہ رات کو شاعر کی ایک قلندر سے(فرضی) ملاقات ہوئی اور مجھ سے اس نے ایک ایک بات ایسی کہی جو لاکھوں مضامین کو متضمن تھی،اور پھر وہ لوٹ یعنی واپس چلاگیا۔
’’لاکھ اقوال ۔۔۔‘‘سے ’’لوٹ گیا ‘‘ پر ہی عطف سمجھیں۔
جی بالکل موت سے بازی ہارجانا مراد ہے۔ ضرورت شعر سے الف حذف کیا ہے۔...