Recent content by سیف خان

  1. سیف خان

    صائب تبریزی کی چند تُرکی ابیات

    تمام احباب سے سوال ہے کہ صائب تبریزی کا تخلص کیا تھا ۔ درحقیقت میں اپنا تخلص صاحب سے صائب کرنا چاہتا ہوں۔اس معاملے میں میری رہنمائی فرما دیں۔۔۔۔۔۔۔۔
  2. سیف خان

    اب تک بغیر اصلاح کے لکھی گئی غزلیں یہاں جاری کر دی ہیں۔

    اب تک بغیر اصلاح کے لکھی گئی غزلیں یہاں جاری کر دی ہیں۔
  3. سیف خان

    اے دل پکارتے ہیں وہ نامِ خدا مجھے ٭ راحیلؔ فاروق

    جناب بہت ہی خوبصورت ! یقیناً آپ تمام احباب سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
  4. سیف خان

    میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

    میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں مجھ پہ ربّ کا اک احسان ہیں تیری آنکھیں بھری محفل میں جو میری جانب اٹھی ہیں بظاہر محبت کی قدردان ہیں تیری آنکھیں اُداس آنگن میں روز ہنسی بکھیر جاتی ہیں میرے نخلستان پہ مہربان ہیں تیری آنکھیں سر محفل محبت کی داستان کہہ رہی ہیں دلی کے حال کی ترجمان ہیں...
  5. سیف خان

    میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

    تُو ہماری خطاؤں پہ پردہ ڈال دے یا رب بندوں پہ ائی مصیبت اب ٹا ل دے یا رب بروز محشر یہ بد عملے رسوا نہ پھر یں نیکیوں پہ مشتمل نامہ اعمال دے یا ربّ تُو بخشنے کو اک نیکی پہ بخش دیتا ہے ہمیں بھی بخشش بے مثال دے یا ربّ صبح شام رہیں تیری رحمت کے سوالی ہمیں عبادتوں میں استقلال دے یا رب اپنی...
  6. سیف خان

    میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

    تیری آرزو کیے بغیر کوئی رات نہیں ہوتی تیرا نام نہ ہو شامل ایسی بات نہیں ہوتی تیری یادوں کہ بھنور میں کھویا رہتا ہوں ہوش میں یہ تکلیف برداشت نہیں ہوتی عجب ہے کہ بے زبان طبیب بھی بول پڑا مجھ سے مریض کی نگہداشت نہیں ہوتی میرے چہرے پہ نمایاں ہے کرب کی تصویر ہر کسی کو دکھاوے کی مہارت نہیں ہوتی...
  7. سیف خان

    میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

    کبھی سنو میرے دل کی آواز کو کبھی سنو محبت کے اس ساز کو روز دعاؤں میں مانگتے ہیں تُجھے کبھی سنو چاہنے والوں کے راز کو حُسنِ جاناں کو بے مثال کہتا ہے کبھی سنو حضور زبان دراز کو کیوں ہر بار تیرے دربار چلا آتا ہے کبھی سنو سسکتے ہوئے فراز کو کیوں شمع پہ جاں وار دیتا ہے کبھی سنو پروانے کے جواز...
  8. سیف خان

    میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

    نہیں کوئی غریبوں کی ترجمانی کر نے والا نہیں کوئی اقتدار سے روگردانی کر نے والا جو اہل تونگر کے ضمیروں کو جگا دے نہیں کوئی ایسا، شعلہ بیانی کرنے والا لاکھوں ہیں حُسنِ جاناں پہ لکھنے والے نہیں کوئی بیان ایسی کہانی کرنے والا افسوس کہ افسوس ہی کرتے ہیں سب نہیں کوئی تبدیل اپنی زندگانی کرنے والا...
  9. سیف خان

    میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

    کسی کو الوداع کہنا ، آسان نہیں ہوتا کسی شام بچھڑ جانا، آسان نہیں ہوتا اپنے سینے میں کوئی زخم چھپا کر پھر سر عام مسکرانا آسان نہیں ہوتا کسی کو زندگی کی حسیں بہار دے کر بدلے میں کچھ نہ پانا آسان نہیں ہوتا دہکتی ریت پہ ننگے پاؤں چل کر ایک آنسو بھی نہ گرانا، آسان نہیں ہوتا دیدار یار کی خاطر...
  10. سیف خان

    میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

    بے سکون زندگی میں سکون تھا وہ میرے کچے آشیانے کا ستون تھا وہ شیر سے ہرن کو کسی روز لڑا دے میرے واسطے ایسا جنون تھا وہ اس کے دعوے پہ زمانہ پریشان ہوتا اپنی باتوں میں کوئی جون تھا وہ اِک پل نہ رہ سکتا تھا اُس کے بنا میر ے جسم کے لئے خون تھا وہ اس کے آنگن کا پھول تھا جو میری ہر غزل کا مضمون...
  11. سیف خان

    میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

    اس رسوائی کا دل پہ اثر نہیں ہوتا میں نے تھا لاکھ چاہا، مگر نہیں ہوتا چاہتا ہوں کروں بیاں کیفیت تم سے اب میرے دل سے صبر نہیں ہوتا زندگی بڑ ے سکون سے گزارتے ہیں کیوں کٹھن اُن کا سفر نہیں ہوتا آتی ہے در پیش انھیں بھی مشکل جو دکھتا ہے پتھر، پتھر نہیں ہوتا ازل سے میری ملکیت میں رہا وہ راستہ،...
  12. سیف خان

    میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

    وہ شخص وکالت کو غلط نام دیتا ہے اوروں کی جفاؤں کا ہمیں الزام دیتا ہے باقی پیشے ہیں درجہ بندی میں گھرے وکیل ہی وکیل کو برابر مقام دیتا ہے پریشانیاں اُن کے کندھوں پہ ڈال کر تُو اس کے بدلے کچھ دام دیتا ہے کیا برا اگر چند پیسوں کے عوض کئی ترپٹی روحوں کو آرام دیتا ہے وہ صبح و شام کی محنت...
  13. سیف خان

    میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

    میں اس جفا کا حقدار تو نہ تھا میرا اس قدر برا کردار تو نہ تھا تم نے بہت آسانی سے ٹھکرا دیا میرا اتنا گرا ہوا معیار تو نہ تھا تم نے سلطنت میں داخلہ نہ دیا صنم، میں کوئی غدار تو نہ تھا سر محفل جسے شرف بخشا تھا وہ روایتوں کا پاسدار تو نہ تھا زرد چہرہ اس بات پہ گواہ تھا تیرے دل کو بھی قرار...
  14. سیف خان

    میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

    تیرے سارے وعدے سراب ٹھہرے انتظار کے یہ لمحے عذاب ٹھہرے ذمے تھے جن کے کام سارے محافظ ہمارے نواب ٹھہرے جو معمور تھے تلاشِ حق پر وہ بندے سار ے کذاب ٹھہرے جو بیتے کل پہ سوال کر لے وہ شخص زیرِ عتاب ٹھہرے عوام کے حق کی بات کر لیں حکمران ایسے نایاب ٹھہرے ایک عہدے کے امیدوار سارے راستوں پہ لے...
  15. سیف خان

    میری تمام غزلوں کا عنوان ہیں تیری آنکھیں

    تیرا دور ہونا مجھے بدحواس کر گیا جو دور تھے غم، اُنھیں پاس کر گیا میرا گمان تھا تیرے بعد سب اچھا ہوگا اس قدر یقین ، آس سے بے آس کر گیا گھر کے آنگن میں جو جال بن رہا تھا وہ شخص مجھے دشمن شناس کر گیا وعدہ تھا جس کا کبھی غربت کا خاتمہ وہ شخص غریبوں کا ستیاناس کر گیا جس نے زندگی گزاری تھی فقیری...
Top