※غزل برائے اصلاح
خلش کیسی یہ دل میں شام سے ہونے لگی ہے
محبت پھر کسی گم نام سے ہونے لگی ہے
تمہارے حسن کو جب چاند سا کہنے لگے ہیں
محبت چرخِ نیلی فام سے ہونے لگی ہے
خماری اس قدر چھائی ہے مجھ پر، ہائے توبہ
کہ وحشت ہر سبو ہر جام سے ہونےلگی ہے
وبائے بے نشاں اتری ہے ایسی اس زمیں پر
کہ اک...
غزل برائے اصلاح
صدقۂ گُل رُخاں نہ ہو جائے
دل مرا پھر جواں نہ ہو جائے
وہ جو الزام مجھ پہ دھرتے ہیں
ان کا تُو ہمزباں نہ ہو جائے
تیرے بن ٹھن کے یوں نکلنے پر
دل یہ آتش فشاں نہ ہو جائے
آج شب پھر تمہاری آمد ہے
گنگ پھر سے زباں نہ ہو جائے
آگئے ہو اگر تو مت جاؤ
میرا گھر پھر مکاں نہ ہو...