رہا پا برہنہ وہ خود مگر، نیا بُوٹ مجھ کو دِلادیا
مِرے باپ کے اِسی رُوپ نے مجھے باپ جیسا بنادیا
مَیں تماشا دیکھنا چاہتا تھا، سَروں کی اونچی قطار سے
مِرے پیر کاندھے پر رکھ دیئے، مجھے دوسروں سے بڑھادیا
جو گِلہ کیا، کڑی دھوپ میں یہ سفر کٹھن بھی ہے، سخت بھی
تو رَدا میں مجھ کو چُھپالیا، کڑی دُھوپ، لُو...
اسی زمیں پر ملاحظہ ہو
ہر ظلم ترا یاد ہے، بھولا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں
اے وقت مٹانا مجھے آسان نہیں ہے
انساں ہوں کوئی نقش کف پا تو نہیں ہوں
چپ چاپ سہی مصلحتاً وقت کے ہاتھوں
مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں
یہ دن تو مجھے ان کے تغافل نے دکھائے
میں گردشِ دوراں ترا مارا...