یہ سبھی، اور ان سے ملتے جلتے دیگر احباب۔ نام لینے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب بابے ہیں جو ہمیں خدا سے جوڑنے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ کتنوں کو اشفاق مرحوم اس طرف لے آئے، کتنوں کو مفتی صاحب کی کتاب 'لبیک' یا 'تلاش' ادھر کھینچ لائی اور ان کی صف میں باشرع علمائے کرام کو بھی شامِل سمجھیے کہ کسی سے بغض نہ رکھا...
ہم ایسوں کے لیے احمد رفیق اختر بھی بابوں کی صف میں شامل ہیں۔ اب آپ فرمائیے کہ کیا وہ شریعت کے پابند ہیں؟ کسی حد تک مذاق کی ذیل میں پوچھا گیا سوال ہے، جو چاہے، تو نظرانداز کر دیجیے۔ ہمیں کچھ مارجن تو دینا ہی پڑتا ہے، ہر ایک کو۔ معیار تو بہت سخت ہے، مگر گنجائشیں بھی موجود ہیں اور شاید ہونی بھی...
بلا شبہ یہ مرض عام ہے اور اس فریب میں مبتلا افراد کے دام میں آنے سے بچنے کے لیے اَب تو میں بھی یہی مشورہ دیتا ہوں کہ خود ہی ذکر الٰہی کا اہتمام کر لو میاں کہ یہاں بہت سے صیاد ہیں جو دام میں پھنسانے کا ہنر جانتے ہیں۔
کوئی بھی ایسا خیال جو کہ آپ کو شرعی حدود و قیود اور معروف عقائد سے ہٹا دینے کا...
اِنسانی سوچ کا مثبت رُخ متعین کرنے میں کلِیدی کردار خدائے واحد کا کثرت سے ذِکر اور نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنا ہے۔ مگر، اس میں آپ کو اپنی شخصیت کی اِنفرادیت کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ یعنی کہ، اگر آپ خدمتِ خلق کی طرف جانا چاہیں، تو اس میں آپ کو بہت...
آپ درست فرما رہے ہیں۔ آپ کی بات سے اُصولی طور پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تاہم، علم کی تفہیم کی کئی جہات ہوتی ہیں، اُس پر بھی توجہ رہنی چاہیے۔ یعنی، جو علم پہنچا ہے، اس کو سمجھنے کے مختلف زاویے ہو سکتے ہیں۔ شاد رہیے۔
دراصل، آپ نے لفظ رُوح کو کافی مضبوطی سے گرفت میں لے رکھا ہے، ہم اس سے رجوع کرتے ہوئے اس بد رُوح کو کوئی اور لقب عنایت کرتے ہیں۔ آپ اسے اُس روح پر قیاس نہ کریں جو امرِ ربی ہے۔ کیا روح پر مسلط طاغوتی قوتوں کو ڈسکس کرنا بھی گناہ ٹھہرے گا؟
حتمی سچائی کی تلاش میں رہنا چاہیے تاہم انسان جِس عقیدے پر قائم ہو، اُس پر مسلسل سوال اٹھاتے رہنا بہتر حکمت عملی ہے۔ اِنسان کو بہرصورت زندگی میں کسی نہ کسی مقام پر تو قرار پکڑنا ہوتا ہے چاہے یہ عارضی ہو وگرنہ کچھ بھی سیکھنا مشکل ہوتا ہے۔ اور، یہ بھی ہے کہ آپ سے سوال اس علم کا ہونا ہے، جو کہ علم...
ایمان و کردار تو باطن کو جِلا بخشتا ہے اور انسان کے درجات ایمان و کردار سے متعین ہوتے ہیں۔ ہم سب اپنے اعمال کے ذِمہ دار اور جواب دِہ ہیں۔ جو سوچ آپ کے ذہن میں وارد ہو، آپ نے اُس کا رُخ متعین کرنا ہوتا ہے۔
اور آپ جسے بد روح سمجھ رہے ہیں، اُس کا معروف معنوں میں مطلب یہ ہے کہ انسان بد اعمالی کے باعث اپنے باطن کو کثافت سے آلودہ کرتا ہے، آپ اس باطن کو رُوح سمجھ لیجیے اور براہِ مہربانی لفظوں کو نہ پکڑیے، مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ لفظوں کو پکڑنے کی عادت سے آپ محض لغات کے چکر کاٹتے رہیں گے۔ روزمرہ...
جو کم علم ہے، یہ اسی کی عطا ہے کہ اہل نظر محض شناخت کر پاتے ہیں۔ روح کا علم کس قدر وسعت لیے ہوئے ہے، میں اور آپ کیا جانیں۔ زیادہ سوال جواب سے گریز کا حکم ہے، نہ کہ یہ کہہ دیا گیا ہے کہ علم سرے سے دیا ہی نہیں گیا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ ہمارا علم محدود ہے اور اس کا اعتراف ہے۔
جن کو اَگر آپ دیکھ لیں تو وُہ جن کہلانے کا مستحق نہ رہے گا۔ سوچ کا تعلق ہی غیب سے ہے تو جس کا تعلق غیب سے ہے، تو اسے محسوس ہی کیا جا سکتا ہے اور غور و فکر اور احساسات و جذبات کے تحت پیدا ہونے والے تخیل کے باعث انسان کے اعمال و افعال میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جن کا ہم مشاہدہ روزمرہ زندگی میں...
مسائل تو قریب قریب سب ہی نفسِیاتی نوعِیت کے ہو سکتے ہیں مگر جو بالخصوص ان طاغوتی قوتوں کے نرغے میں ہوں، اُن کو دیکھ کر ہی اندازہ قائم کِیا جا سکتا ہے۔ اہلِ نظر کے یہ اسرار ہم سے پوشیدہ ہیں مگر مشاہدہ یہی ہے کہ وہ آسیب وغیرہ سے ربط و تعلق پیدا کر لیتے ہیں۔ ہالہ، نسمہ، جسمِ مثالی، کچھ بھی کہہ لیں،...
جو فرد آپ سے کِسی ایسے کام کے لیے مُعاوضہ طلب کرے، شریعت کے ظواہر سے ہٹا ہوا ہو، نشے وغیرہ جیسی عاداتِ بد میں مُبتلا ہو، تو سمجھ جائیے، کہ یہ اہلِ نظرمیں سے نہیں ہو سکتا ہے۔