شورِ مہ نو سن کر تجھ تک ميں دواں آيا
ساقی ميں ترے صدقے ميں مے دے رمضاں آيا
اس گل کے سوا ہر گل باگوش گراں آيا
ديکھے ہی گی اے بلبل جب وقت فغاں آيا
جب بام تجلی پر وہ نيرِ جاں آيا
سر تھا جو گرا جھک کر دل تھا جو تپاں آيا
جنت کو حرم سمجھا آتے تو يہاں آيا
اب تک کے ہر اک کا منہ کہتا ہوں کہاں آيا...
دسمبر جاتے جاتے یہ مِری فریاد سُن جانا
کہ اگلے سال جب آﺅ تو یوں تنہا نہیں آنا
میں جس کے ہجر میں ہر لحظہ ہر لمحہ تڑپتا ہوں
مِری اُس راحتِ جاں کو تم اپنے ساتھ لے آنا
زبیر قمر عبّاسی
December Jaatey Jaatey Ye Miri Faryaad Sun Jaana
K Agley Saal Jub Aao To Yun Tanha Nahi Aana
Main Jiss K Hijr...
واہ، علامہ عبدالرحمٰن جامی علیہ رحمہ کا بہت ہی خوبصورت اور مشہورِ زمانہ کلام ہے جِسے اُمِ حبیبہ صاحبہ نے بڑی خوبصورتی اور عمدگی کے ساتھ پڑھا ہے جِسے نیچے دیئے گئے ربط پر سنا اور دیکھا جا سکتا ہے۔
امِ حبیبہ کے پڑھے گئے اِس کلام میں ایک شعر ہے
در عشق تو دندان شکستہ است بہ الفت
تو جامہ رسانید اویس...
یا الٰہی ہر جگہ تیری عطاء کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل، شہِ مشکل کُشا کا ساتھ ہو
یا الٰہی بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو
شادیِ دیدارِ حُسنِ مصطفےٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی گورِ تیرہ کی جب آئے سخت رات
اُن کے پیارے منہ کی صبحِ جانفزا کا ساتھ ہو
یا الٰہی جب پڑے محشر میں شورِ دارو گیر
امن دینے والے پیارے پیشوا...