ارشد سعد ردولوی

لب پہ جب کوئی پرانا مرے نغمہ جاگا
پھر نیا آہ و فغاں کا کوئی لمحہ جاگا

ہم کو خوشحالی نے بخشی ہے فقط آسائش
درد جب چیخا سرِ بزم زمانہ جاگا

بے قراری میں کٹی شب نہ ملا چین کہیں
جب تری یاد کا کل رات پرندہ جاگا

یک بیک ہو گیا خاموش وہ مجمع سارا
درد میں ڈوبا ہوا اس کا جو لہجہ جاگا

زندگی بھر مری باتوں کا تو انکار کیا
بعد مرنے کے مرے مجھ پہ بھروسہ جاگا

رات بھر نیند نہیں آئی مجھے بھی سن کر
بھوک سے روتا پڑوسی کا جو بچہ جاگا

فیصلہ جھوٹ کے جب حق میں کیا عادل نے
کرنے انصاف مرے خون کا قطرہ جاگا

متحد تھے تو زمانے پہ حکومت کرلی
قوم جب بکھری تو باطل کا اجارہ جاگا

ہجر کی شب تھی مرے پاس نہیں تھا کوئی
میرے کمرے میں مرے ساتھ تھا تکیہ جاگا

تم نے دھیرے سے کہا تھا کہ سنو کل ملنا
اب بتاؤ تو سہی کیسے یہ فتنہ جاگا

سعد غفلت کی اتاری جو بدن سے چادر
یوں لگا قبر سے سویا ہوا مردہ جاگا

ارشد سعد ردولوی
جھنڈا
India
موڈ
Brooding
Gender
Male
Top