کتابِ زندگی

جسم کی ظاہری بناوٹ کے ساتھ ساتھ اپنی اندرونی سجاوٹ بھی کریں۔
اندر کا دھیان کیسے رکھیں؟
بالکل ویسے ہی۔۔۔جیسے باہر کا۔۔۔دھیان رکھنا سیکھا ہے۔۔۔جیسے بال بنانا۔۔۔برش کرنا۔۔۔نہانا۔۔۔نت نئے کپڑے پہننا۔۔۔حتیٰ کہ سیدھی جرابیں تک۔۔۔پہننا سیکھا ہے۔۔۔
بس باہر کو ہی۔۔۔سجانا سیکھ لینے سے۔۔۔انسان کہاں مکمل ہوتا ہے۔۔۔اندر کی سجاوٹ سے ہی تو ۔۔۔زندگی سنورتی ہے۔۔۔
کچھ لوگ بولتے ہیں تو۔۔۔باتوں سے بدبو آتی ہے۔۔۔لفظوں کا صحیح استعمال بھی نہیں سیکھ سکتے۔۔۔تمام عمر۔۔۔چابیاں جیب میں ہوتے ہوئے۔۔۔جذبوں کی جیل میں۔۔۔قید رہتے ہیں۔۔۔
خالی چہرے کا بناؤ سنگھار کی نہیں ۔۔۔ باقی جسم کی بھی صفائی ستھرائی کرنی ہو تی ہے۔۔۔۔پاؤں کی ایڑیوں کو بھی چہرے جتنی توجہ چاہیئے ہوتی ہے۔۔۔
اور بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔۔۔محبت کرنا۔۔۔نفرت نہ کرنا۔۔۔بدلہ نہ لینا۔۔۔معاف کر دینا۔۔۔رحم کرنا۔۔۔ظلم سے بچنا۔۔۔اخلاق سے پیش آنا۔۔۔غصے کو قابو کرنا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندر کا دھیان رکھنا ،سب کچھ سیکھنے سے آتا ہے۔
اپنا دھیان رکھئیے۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے لیے دعا کیجیئے۔
 

سیما علی

لائبریرین
باقی جسم کی بھی صفائی ستھرائی کرنی ہو تی ہے۔۔۔۔پاؤں کی ایڑیوں کو بھی چہرے جتنی توجہ چاہیئے ہوتی ہے۔۔۔
اور بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔۔۔محبت کرنا۔۔۔نفرت نہ کرنا۔۔۔بدلہ نہ لینا۔۔۔معاف کر دینا۔۔۔رحم کرنا۔۔۔ظلم سے بچنا۔۔۔اخلاق سے پیش آنا۔۔۔غصے کو قابو کرنا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندر کا دھیان رکھنا ،سب کچھ سیکھنے سے آتا ہے۔
اپنا دھیان رکھئیے۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے لیے دعا کیجیئے۔
صد فی صد درست بات ہمارے اباّجان پروردگار اپنے جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ہمیشہ کہتے کسی کو دیکھنا ہو تو ایڑیاں اور پیر دیکھ لو اور بہت کچھ اندر کا نظر آجائے گا اور ایسا ہی ہے بظاہر سجانے سے اندر نہیں اُجلا ہوجاتا ہے سب ساری بات سمجھ کی ہے !!!!!!!!
 
صد فی صد درست بات ہمارے اباّجان پروردگار اپنے جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ہمیشہ کہتے کسی کو دیکھنا ہو تو ایڑیاں اور پیر دیکھ لو اور بہت کچھ اندر کا نظر آجائے گا اور ایسا ہی ہے بظاہر سجانے سے اندر نہیں اُجلا ہوجاتا ہے سب ساری بات سمجھ کی ہے !!!!!!!!
شکریہ آپی جان ، جی درست کہا آپ نے۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں :

حقیقت توبہ چار ستونوں پر استوار ھے : دل سے پشیمان ھونا، زبان سے استغفار کرنا ،اعضاء کے عمل کے ذریعے اور دوبارہ ایسا گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرنا ۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں :

انسان کو چاھیے کہ اپنی زبان کی حفاظت کرے اس لئے کہ یہ سر کش زبان اپنے صاحب کو ھلاک کر دیتی ھے خدا کی قسم! میں نے کسی بندہ ٴمتقی کو نھیں دیکھا جس کو اس کے تقوی نے نفع پھونچایا ھو مگر یہ کہ اس نے اپنی زبان کی حفاظت کی ھو ۔

منتخب میزان الحکمة
 
کيا تم جانتے ھو تمہيں كب اپنے آپ پر رونا چاھيے؟
جب تم برائى كو ديکھو اور اسکو برا نہ سمجھو، اور جب تم نیکی کو دیکھو تو اسکو حقير جانو۔
خود پر رویا کرو! جب تمہاری نماز عبادت سے عادت میں بدل جائے اور راحت کے لمحے سے بد بختى میں۔
خود پر رویا کرو! اگر اپنے اندر گناھوں کی قبولیت دیکھو اور اس ذات سے مقابلے کی چاھت ديكهو جو تمام غيب كى باتوں كو جاننے والی ھے۔
خود پر رویا کرو! جب تم عبادت کی لذت محسوس نہ كرسكو اور نہ ھى اطاعت كا لطف۔
خود پر رویا کرو ! جب تم بهر جاتے ھو غموں سے اور تم ڈوب جاتے ھو تفكرات ميں حالانكہ تمہارے اختيار ميں ھے آخری تھائى رات (كى بهلائيوں كو پانا)
خود پر رویا کرو ! جب اپنے وقت کو ایسے کام میں برباد کرتے ھو جو مفید نہ ھو حالانکہ تم جانتے ھو کہ تمھارا حساب ليا جائےگا په۔ر بهى تم غفلت ميں مبتلا ھو
خو د پر رویا کرو ! جب تمہاری آنکھ کسی فلم کے مؤثر منظر پر تو آنسو بھاتی ھو ليكن وه قران کریم کی سماعت سے متاثر نہ ھوتی ھو
خود پر رویا کرو ! جب تم زوال پذیر دنیا کے پیچھے تو بھاگنے لگو ليكن الله كى اطاعت میں، کسی سے آگے نکلنے کی کوشش نہ كرو
خود پر رویا کرو ! جب تم جان لو کہ تم نے غلط راه اپنا ركهی ھے اور جبکہ کثير عمر تو گزر چکی ھے۔
! خود پر رویا کرو ! اپنی غلطیوں پر،اپنے گناہوں پر،
خوف رکھنے والے کے رونے کی طرح...توبہ كرنے والے...رجوع کرنے والے...اپنے مولا کی رحمت كے امیدوار کے رونے کی طرح
اور تم جانتے ھو کہ توبہ كا دروازه كھلا ھوا ھے جب تک روح حلق تک نھيں پھنچ جاتی
شاید یہ رونا روح میں سے سکون کو متحرك كر (كے نكال) دے اور دل میں سے غفلت كو اور شايد اسی آنسو میں رجوع ھو
جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔
یا اللہ! مجھے سجدوں میں رونے والوں میں شمار کرلے۔۔۔۔۔آمین
 
کہتے ہیں "معافی" اور "توبہ" کی توفیق بهی مقدّر والوں کو ملتی ہے. ورنہ آنکهوں پہ لوہے کے پردے اور کانوں میں سیسه پگهلا دیا جاتا ہے.اور سوچنے سمجهنے کی صلاحیتیں سلب کرلی جاتی ہیں۔
لیکن ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺘﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮ، اللّٰه ﺍﺱ کے لیٸے توبہ کا در ، ﺩُﻋﺎ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﻭﺭ ﺭﺯﻕ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ.

نعمت كى ناشكرى زوال کا آغاز ہے
اوراستغفار کى كثرت عروج کا آغاز ہے
استغفر اللّٰه سَر بلندی کا وظیفہ ہے اور
الحمد اللّٰه انعام یافتہ بندوں کا وِرد۔
یا اللّٰه ہمیں اپنے ہدایت یافتہ اور انعام یافتہ بندوں میں شامل فرما۔
آمین ۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت علی علیہ السلام اور عدل و انصاف
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے مشہور صحابی ابو الاسود دوئلی کو ایک جگہ قاضی بنایا اور پھر کچھ ہی عرصے کے بعد معزول کر دیا تو انہوں نے پوچھا: یا امیر المومنین میں نے نہ تو کوئی خیانت کی اور نہ ہی کسی طرح کی ناانصافی اور ظلم، پھر آپ نے مجھے کیوں معزول کر دیا؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’میں نے دیکھا کی تمہاری آواز مدعی کی آواز سے بلند ہو جاتی ہے. لہذا تمہیں معزول کر دیا۔

حضرت علی علیہ السلام نے فیصلہ، قضاوت اور حدود الہیٰ کے نفاذ میں اپنے پرائے، دوست و دشمن، غلام و آقا، عرب و عجم سب کو ایک نگاہ سے دیکھا. چنانچہ تاریخ میں ایسے بہت سے شواہد ملتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حکم الہیٰ کی مخالفت اور جرم کے مرتکب ہونے کی صورت میں اپنے قریبی ترین چاہنے والوں پر بھی حدود الہیٰ کو جاری کیا۔ چنانچہ نجاشی نام کے آپ کے ایک قریبی چاہنے والے نے، جو بہت بڑے شاعر تھے اور ہمیشہ آپ کی حمایت میں اشعار کہا کرتے تھے، شراب پی لی. تو آپ نے اس پر بھی شراب پینے کی حد جاری کر دی اور جب اس کے قبیلہ والوں نے اعتراض کیا تو فرمایا: ’’اے بنی نہد کے بھائیو! نجاشی بھی امت مسلمہ کا ایک فرد ہے۔ لہذا ہم نے کفارہ کے طور پر اس پر بھی شریعت کی حد جاری کی ہے۔۔۔۔

قیدیوں اور مجرموں کے ساتھ عدل
آج عدالت کے علمبردار اور حقوق انسانی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے کس طرح سے عدالت اور حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، یہ کسی بھی صاحب عقل و شعور سے پوشیدہ نہیں ہے۔ آج امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک میں اسیروں اور مجرموں کے ساتھ جو برتاو کیا جاتا ہے۔ اس کی معمولی مثالیں گوانتا نامو اور عراق میں ابو غریب اور دیگر امریکی جیلوں سے ملنے والی کچھ سنسنی خیز خبریں ہیں، جنہیں سن کر ہر انسان کا بدن لرز جاتا ہے اور دل دہل جاتا ہے۔ ایک طرف قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام اپنے قاتل کے سامنے دودھ کا پیالہ پیش کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عدالت کے تشنہ انسان کو صرف اسلام ہی کے چشمہ زلال اور سر چشمہ حیات سے سیرابی حاصل ہوسکتی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے قاتل کے بارے میں جو وصیتیں کی ہیں، وہ درحقیقت منشور انسانیت ہیں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: *’’دیکھو اگر میں اس ضربت سے جانبر نہ ہوسکا تو میرے قاتل کو ایک ہی ضربت لگانا؛ اس لئے کہ ایک ضربت کی سزا اور قصاص ایک ہی ضربت ہے اور دیکھو، میرے قاتل کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کرنا، کیونکہ میں نے سرکار دو عالم سے سنا ہے کہ خبردار! کاٹنے والے کتے کو بھی مثلہ نہ کرنا (اس کے بدن کے اعضاء نہ کاٹنا)*

مذہبی اقلیتوں کیساتھ عدل
تاریخ شاہد ہے کہ مذہبی اقلیتوں، مثلاً اسلامی مملکت میں رہنے والے عیسائیوں اور یہودیوں وغیرہ کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کا زمانہ ان کی پوری تاریخ کا سب سے سنہرا اور پرامن دور ہے۔ ان کے علماء اور مفکرین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے گورنروں کو غیر مسلموں کے حقوق اور ان کے احترام کے بارے میں خصوصی تاکید کیا کرتے تھے، جس کی ایک مثال مالک اشتر کا عہدنامہ ہے. بطور مثال، صرف ایک جملہ ملاحظہ ہو: *سارے لوگ تمہارے بھائی ہیں، کچھ دینی اور کچھ انسانی اعتبار سے، لہذا تمہیں سب کے حقوق کا لحاظ رکھنا ہوگا۔۔۔۔* تاریخ میں یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ آپ نے ایک پریشان حال بوڑھے عیسائی کو دیکھ کر مسلمانوں کی سخت توبیخ کی اور پھر بیت المال سے اس کے لئے ماہانہ وظیفہ معین کر دیا۔ ایک لشکر نے جب ’’انبار‘‘ پر حملہ کیا اور اس کے ایک سپاہی نے ایک کافر ذمی عورت کا پازیب اور گوشوارہ چھین لیا تو آپ علیہ السلام نے مسلمانوں کو جمع کرکے ایک خطبہ دیا اور فرمایا: *اس دردناک اور شرمناک واقعہ پر اگر کوئی مسلمان افسوس کرتے ہوئے مر جائے تو وہ قابل ملامت نہیں ہے*

آپ کی عدالت اتنی مشہور ہوئی کہ دین و مذہب کی حدوں سے گزر کر ہمہ گیر شکل اختیار کر گئی اور آج دنیا کا ہر مفکر اور دانشور، خواہ وہ کسی بھی ملت و مذہب سے تعلق رکھتا ہو، آپ کی عدالت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو اپنا شرف سمجھتا ہے۔ چنانچہ جارج جرداق نام کے ایک مسیحی دانشور نے آپ کی عدالت کے موضوع پر 5 جلدوں پر مشتمل ’’صوت العدالۃ الانسانیہ‘‘ نام کی کتاب بھی تالیف کردی، جو دنیا کی مختلف مشہور زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکی ہے۔ مسیحی مصنف جارج جرداق کی امام علی علیہ السلام کے بارے میں لکھی ہوئی کتاب "ندائے عدالت انسانی" سے کچھ اقتباسات۔ امیر الموٴمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے، جس سے اپنے اور غیر سبھی مفکرین اور دانشمند متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جس کسی نے اس عظیم انسان کے کردار، گفتار اور اذکار میں غور کیا، وہ دریائے حیرت میں ڈوب گیا۔ غیر مسلم محققین اور دانشوروں نے جب امام المتقین علیہ السلام کے اوصاف کو دیکھا تو دنگ رہ گئے، کیونکہ انہوں نے افکارِ علی کو دنیا میں بے نظیر اور لاثانی پایا۔

جارج جرداق کی تحقیق
لبنان کے مشہور عیسائی محققق، دانشور اور لکھاری جارج جرداق نے حضرت علی علیہ السلام کی سیرت پر "ندائے عدالت انسانی" نامی مشہور کتاب لکھی ہے، جارج جرداق کے مطابق جب اس نے اس کتاب کو مکمل کیا تو کوئی بھی پبلشر اس کتاب کو شائع کرنے پر راضی نہیں تھا۔ وہ کہتا ہے کہ اس لئے میں بے چین ہو کر لبنان کے ایک چرچ میں چلا گیا، جہاں ایک عیسائی بشپ نے میری بے چینی کی وجہ پوچھ کر مجھے ایک تھیلی میں رقم دے کر کتاب چھاپنے کا کہا۔ جب یہ کتاب چھپ گئی اور لبنان سمیت دنیا بھر میں اس سے منافع حاصل ہوا تو میں نے بشپ کو رقم تھیلی میں بند کرکے شکریہ کے ساتھ واپس کرنا چاہی، لیکن بشپ نے جواب میں کہا کہ *اس میں شکریہ اور احسان کی کوئی بات نہیں، میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے ان احسانوں کا ایک معمولی سا شکریہ ادا کیا ہے۔

چونکہ جب حضرت علیؑ، امیرالمومنین و خلیفۃ المسلمین بن گئے تو آپ نے تمام اقلیتوں بشمول عیسائیوں کے نمائندوں کو طلب کیا اور فرمایا کہ مجھ علی کے دور میں تم اقلیتوں کو تمام تر اقلیتی حقوق اور تحفظ حاصل رہے گا، اس لئے حضرت محمد رسول اللہ (ص) کے بعد اس کے وصی امیر المومینن حضرت علی (ع) کا دور خلافت اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے ساتھ مثالی ترین دور تھا، جس میں اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے خلاف کہیں بھی ظلم و جبر نہ ہوا، اس لئے میں (بشپ) نے علی (ع) کے احسان کا معمولی شکریہ ادا کیا ہے، جارج جرداق جا کر یہ رقم غریبوں میں بانٹ دو۔* جارج جرداق اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ انسانی معاشرہ میں واحد لیڈر علی بن ابی طالب (ع) ہیں، جنہوں نے انسانیت اور عدالت کی بنیاد پر بیت المال کی تقسیم کی ہے۔ *جب آپ (ع) نے اہل کوفہ سے سوال کیا کہ کیا تم میں کوئی ایسا ہے، جو بھوکہ ہو تو سب نے کہا یاعلی! آپ حاکم ہیں، اب یہاں کوئی بھوکہ نہیں ہے۔ سوال کیا کوئی ہے، جس کے پاس لباس نہ ہو۔؟ سب نے کہا یاعلی! اب سب کے پاس لباس ہے ۔ سوال کیا کوئی ہے، جس کے پاس مکان نہ ہو۔؟ سب نے کہا یاعلی! سب کے پاس مکان ہے۔ امام علی (ع) نے عدالت کا جو نمونہ پیش کیا، اسے دیکھ کر دنیا آج تک حیرت زدہ ہے۔*

جارج جرداق اس واقعے کا بھی ذکر کرتا ہے، جب امام علی (ع) نے ایک بوڑھے یہودی کو کوفے میں بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تھا۔ امام نے سوال کیا کہ یہ میری حکومت میں بھیک کیوں مانگ رہا ہے۔ اس نے کہا یاعلی! کل تک مجھ میں قوت تھی، میں کام کرتا تھا، لیکن اب مجھ میں قوت نہیں رہی۔ امام نے فرمایا اس کی تمام ضرورتوں کو بیت المال کے ذریعہ پورا کیا جائے اور اسے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ کسی نے کہا یاعلی! یہ یہودی ہے۔ آپ نے فرمایا یہ ایک انسان ہے، جب تک اس کے جسم میں قوت تھی، اس نے معاشرے کی خدمت کی ہے۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ یہ علی بن ابی طالب (ع) ہیں، جنہوں نے انسانی بنیادوں پر تقسیم اموال کیا ہے۔ یہ عدالت انسانی کی آواز ہے اور عدالت کی حدود عالمی حدود ہیں۔ اس پر غور و فکر ہونا چاہیئے، اس پر گفتگو اور کام ہونا چاہیئے۔

ایک اور جگہ ندائے عدالت انسانی میں لکھا ہے: ’’علی کی تمام تر توجہ مساوات و عدل کے قوانین کو موثر طریقے سے بروئے کار لانے پر مرکوز تھی۔ ان کے افکار اور اندازفکر حکومت اور ان تمام تر حکمت اسی مقصد کے حصول کے لئے وقف تھی۔ جب کسی ظالم نے عوام کے حقوق کی پائمال کی یا کسی کمزور سے تحقیر آمیز رویہ اختیار کیا، علی اس سے سختی سے نمٹے۔ حضرت علی نے معاشرتی زندگی میں عدل کو کتنا لازمی قرار دیا ہے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ایک دن کچھ لوگ جنہوں نے آپ کی بیعت بھی کر رکھی تھی، آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم آپ کے خیر خواہ ہیں، آپ کو یہ مشورہ دینے آئے ہیں کہ اگر آپ اشراف عرب کو دوسروں پر ترجیح دیں تو ان کی پیش رفت کے لئے مناسب ہوگا۔ آپ اس تجویز سے ناراض ہوئے اور فرمایا، کیا تم مجھے یہ حکم دیتے ہوکہ میں رعایا پر ظلم کروں یا دوستوں کا ایک گروہ اپنے گرد جمع کر لوں۔؟ خدا کی قسم جب تک دنیا موجود ہے اور ستاروں کی گردش باقی ہے، میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ اگر یہ مال میرا اپنا بھی ہوتا تو بھی اسے برابر تقسیم کرتا جبکہ یہ مال تو ہے ہی خدا کا۔‘‘

ایک جگہ جارج جرداق اپنی کتاب میں لکھتا ہے: تاریخ اور حقیقت ِانسانی کیلئے یکساں ہے کہ کوئی علی علیہ السلام کو پہچانے یا نہ پہچانے، تاریخ اور حقیقت ِ انسانی خود گواہی دے رہی ہے کہ علی علیہ السلام کا ضمیر زندہ و بیدار تھا۔ وہ شہید ِراہِ خدا تھے اور شہداء کے جد تھے، عدالت ِ انسانی کی فریاد تھے۔ مشرق کی ہمیشہ زندہ رہنے والی شخصیت تھے۔ *ایک کُلِ جہان!* کیا تیرے لئے ممکن ہے کہ باوجود اپنی تمام قوتوں کے، اپنی ترقیِ علم و ہنر کے لئے علیؑ جیسا ایک اور انسان جو علیؑ جیسی عقل رکھتا ہو، اُسی جیسا دل، ویسی ہی زبان اور ویسی ہی تلوار رکھتا ہو، اس دنیا کو عطا کر دے؟

آپکی شہادت اور جارج جرداق
اکیس رمضان المبارک حضرت علی (ع) کی شہادت کا دن ہے۔ آپ کی شہادت سے متعلق جارج جرداق یوں لکھتا ہے: علی (علیہ السلام) مسجد میں آئے، رب العزت کے حضور سرجھکایا، ابن ملجم زہر آلود تلوار ہاتھ میں لئے آیا اور حضرت کے سر پر وار کیا کہ جس کے متعلق اس کا کہنا تھا کہ اگر یہ وار سارے شہر کے باشندوں پر پڑے تو ایک شخص بھی زنده نہ بچے۔ خدا کی لعنت ہو ابن ملجم پر اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو اس پر، اس پر دنیا میں ہر آنے والے اور دنیا سے ہر جانے والے کی لعنت ہو، ہر اس شخص کی لعنت ہو، جو خدا کے حکم سے پیدا ہؤا۔ خداوند عالم ابن ملجم پر ایسی لعنت کرے کہ وہ لعنت دریاؤں پر پڑے تو وہ خشک ہو جائیں، کھیتوں پر پڑے تو وه نیست و نابود ہو جائیں اور سرسبز پودوں کو زمین کے اندر ہی جلاکر راکھ کر دے۔ جہانوں کا خالق و مالک جہنم کے بهڑکتے شعلے اس پر مسلط فرمائے اور اسے منہ کے بل جہنم میں ڈال دے۔ اس جگہ جہاں آگ کے شعلے لپک رہے ہوں اور قہر الہیٰ کا جوش و خروش ظاہر ہو رہا ہو۔

محبان علی (علیہ السلام) کو عظیم ترین صدمہ پہنچا، زمانے نے علی (علیہ السلام) پر گریہ کیا اور آنے والی صدیاں بھی علی (علیہ السلام) پر گریہ کریں گی۔ دنیا کی ہر چیز شکستہ و اندوہ گین ہوئی، سوائے علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) کے، جن کا چہرہ ہشاش بشاش تها۔ آپ (علیہ السلام) نے نہ انتقام کی خواہش ظاہر کی نہ غیظ و غضب کا اظہار کیا بلکہ ”فزت برب الکعبة” کہہ کر اپنی کامیابی کا اعلان فرما دیا۔ لیکن آپ (علیہ السلام) کے چہرے کی بشاشت تمام مصائب و آفات سے بڑھ کر اندوہناک تھی۔ اس وقت آپ کا چہره سقراط کے چہرے سے مشابہ تها، جس وقت جاہل اور نادان عوام نے اسے زہر پلایا تها۔ عیسیٰ ابن مریم (علی نبی نا و آلہ و علیہ السلام) کے چہرے جیسا تها، جبکہ قوم یہود آپ (علیہ السلام) کو کوڑوں سے اذیت پہنچا رہے تھے، محمد مصطفیٰ (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کے چہرے جیسا تها، جب آپ (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) پر طائف کے نادان پتھر برسا رہے تھے اور یہ نہ سمجھ رہے تھے کہ ہم کس بزرگترین ہستی کو یہ پتھر مار رہے ہیں۔

علی بن ابی طالب(ع) کی شہادت
کوفہ کا سب سے بڑا طبیب حاذق اثیر بن عمرو ہانی آیا اور زخم کے معائنے کے بعد اس نے مأیوسی کا اظہار کیا، آپ نے حسن اور حسین (علیہماالسلام) کو اپنے پاس بلا کر وصیتیں فرمائیںو جن میں سے چند جملے یہ ہیں: *میرے قتل کی وجہ سے ہنگامہ یا خونریزی نہ کرنا، اپنے پڑوسیوں کا لحاظ کرنا، فقراء اور مساکین کا خیال رکهنا اور انہیں بھی اپنی روزی اور معاش میں شریک رکهنا، اچهی بات کہنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرنا، آپس میں لطف اور مہربانی سے پیش آنا، بی تکلفی اور سادگی برتنا، ایک دوسرے سے نہ کٹنا، متفرق نہ ہونا و۔۔۔ بروز جمعہ صبح کے وقت آپ (علیہ السلام) کے فرق مبارک پر ضربت لگی تھی، اس کے بعد دو روز تک انتہائی کرب و اذیت کے عالم میں زنده رہے، مگر آپ* (علیہ السلام) نے اف تک نہ کی، لوگوں کو احسان و نیکی اور رحم و کرم وصیت فرماتے رہے۔ ماه رمضان کی اکیسویں شب کو آپ (علیہ السلام) نے اس دنیا سے رحلت فرمائی۔اور جامِ شہادت نوش فرمائی!
یا علی شیر خدا تیری امامت کو سلام
زورِ بازوئےنبی ! تیری شجاعت کو سلام
تیراگھر ہے جنتی اَفراد کی آماجگاہ
حیدرِکرار ! تیری اٰل و عترت کو سلام
بن گئ فانوسِ قندیلِ حرم تیری حیات
شیرِیزداں،تیری ہمت، تیری جُرأت کو سلام
مصطفٰی کی پیاری شہزادی ترےگھر کی بَہار
والدِ حسنین تیری شان و شوکت کو سلام
تھے شبِ ہجرت ‘نبی کے بسترِ اطہر پہ آپ
پُرخَطَرماحول میں سونے کی ہمت کو سلام
کر دیا قرباں ، محبت پر نمازِ عصر کو
اُس ادائے عشق ، تقدیمِ محبت کو سلام
تیرے جلوؤں سے منور ہیں چراغِ اولیا
فاتحِ خیبر ، تری بزمِ طریقت کو سلام
آپ ہیں دروازۂ شہرِ علومِ مصطفٰی
آپ کی فکر وفراست، علم و حکمت کو سلام

 
ایک دن ٹریفک آفیسر سے کسی نے پوچھا کہ
"سر یہ کیا ماجرا ھے کہ آپ ایک گاڑی کو سلیوٹ مارتے ہیں اور دوسری گاڑی والے سے سوال جواب کرتے ھیں آخر اسکی
وجہ کیا ھے؟"
تو ٹریفک والے نے جواب دیا...
"بھائی جان بات اسطرح ھے کہ ہم سب سے پہلے گاڑی کی نمبر پلیٹ کو چیک کرتے ھیں کہ اگر اس نمبر پلیٹ پر"سرکار کا نمبر"ہو تو ہم اسکو سلیوٹ مارتے ہیں اور جس کی پلیٹ پر"سرکار کا نمبر" نہ ھو اس پر شک ھوتا ھے اسلئیے اس سے ہم سوال و جواب کرتے ھیں....
مثال عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اہل اللہ فرماتے ہیں کہ ارشاد الہی ھے
"اس دن نہ تو مال کام آئے گا اور نہ ہی اولاد بلکہ میری بارگاہ میں آنا ھے تو "قلب سلیم" لے کر آنا."
کہ ارے بندے تو ذرا سمجھ تو سہی کہ تیرا "دل" اس نمبر پلیٹ کی مانند ھے اور
اگر تو اس دنیا میں"دل "کی نمبر پلیٹ پر"سرکار کا اسم" اسم اللہ ذات" نقش کر کے قبر میں گیا تو فرشتوں کی کیا مجال کہ وہ تجھ سے سوال و جواب کریں سوال و جواب تو" غیروں" سے ھوتے ھیں "اپنوں "کو تو سلیوٹ مارا جاتا ھے ......
 
کہنے کو چھوٹی سی بات ھے مگر بہت بڑی اور بہت تلخ ھے
جو بھائی یا بیٹے شادی کے بعد بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں اور اپنی بیوؤں کو اپنے گھر والوں کے پاس چھوڑ جاتے ہیں ۔ان سے گزارش ھے کہ کبھی اپنی شریکِ حیات کے بارے میں بھی سوچیں۔
آپ کہیں پیسہ کمانے کے چکر میں نارِ جہنم تو نہیں کما رہے۔
کیاآپکو یقین ھے کہ آپکی بیوی دو چار سال آپ کے بغیر گزار سکتی ھے۔
جوان بیوی گھر میں چھوڑ کر کیوں جاتے ہیں؟
یا تو بیوی کو ساتھ لے جائیں یا اگر افورڈ نہیں کر سکتے تو اپنے گھر کے پاس ہی کوئی محنت مزدوری ڈھونڈ لیں۔۔
رزق دینے والی ذات اللہ کی ھے۔
اگر آپ کے گھر چھوٹے بچے یا بچیاں ہیں تو آپکی بیوی کے بعد ان پر بھی لوگوں کی نظر پڑ سکتی ھے۔
حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ دیور موت ھے۔۔۔کچھ لوگ اپنی بیویوں کو دیور کے پاس خود ہی چھوڑ جاتے ہیں ۔
ٹھیک ھے میاں بیوی کو ایک دوسرے پر اعتبار ھونا چاہیئے،لیکن اندھا اعتبار مت کیجئے۔
بیوی کو صرف شاپنگ کیلئے پیسہ ہی نہیں ،آپ کی بھی ضرورت ھے۔
اسکی جسمانی خواہش کیلئے آپکا اشکے پاس ھونا ضروری ھے۔۔۔
اپنی بیوی کو کچھ اس طرح سے رہنا سکھائیے کہ کسی کے بہکاوے میں نہ آئے۔
اسے اعتماد دیجیئے
اسے مصروف رکھیئے
کچھ لوگ بڑے مان سے کہتے ہیں ہم عورتوں سے کام نہیں کرواتے ۔یہ جان لیجئے فارغ ذہن شیطان کا کارخانہ ھے۔۔۔
سوچیئے۔۔۔۔۔۔ یہ ڈالر کہیں آپکی آنے والی نسل کو تباہی کی طرف تو نہیں لے کر جا رہے۔
آج کسی سے بات ھوئی تو یہ لکھنا پڑا ،،،بہت افسوس ہوا ۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی عورت خود اپنی زبان سے کسی کو یہ بتا سکتی ھے تو وہ کس حد تک جا سکتی ھے۔
مجھے یاد نہیں قرآن کی کسی آیت کا ترجمہ ھے یا کوئی حدیث ھے کہ سب کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے سوائے ان کے جنہوں نے گناہ کرکے خود لوگوں کو بتایا۔۔۔۔۔
اگر کسی کی دلآزاری ھوئی تو معذرت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تصویر کا ایک رخ ھے۔اب دوسرے رخ میں بات دوسری طرف کی ھے۔
یہ بات ان عورتوں میری بہنوں اور بیٹیوں کیلئے ھے جن کے شوہر روز گار کے سلسلے میں بیرونِ ملک یا دوسرے شہر رہتے ہیں۔
حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ نیک عورت وہ ھے کہ جب اسکا شوہر اسکو دیکھے تو خوش ھو جائے۔۔۔۔جب اسکا شوہر حکم کرے تو وہ اطاعت کرےاور جب اس کا شوہر گھر سے چلا جائے تو اسکی عزت اور اسکے مال کی حفاظت کرے۔
اب حدیث ﷺ سے پتہ چلا کہ شوہر کی عزت عورت پر فرض ھےاور اس میں یہ کہیں بھی نہیں کہ کب تک کرے۔۔۔۔ یعنی اسکی واپسی تک چاہے وہ جب بھی آئے ۔چاہے بہت سال بعد ہی کیوں نہ آئے۔عورت پر فرض ھے کہ شوہر کی عزت کی حفاظت کرے۔یعنی اپنی حفاظت کرے۔
ایک اور حدیثِ نبویﷺ ھے کہ اگر انسان کو سجدہ جائز ھوتا تو اللہ رب العزت بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔
زنا کی سزا اسلام میں سنگسار کرنا ھے تاکہ دیکھنے والے عبرت حاصل کر سکیں۔
حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ جس نے مجھے دو چیزوں کی ضمانت دی،ایک جو دو جبڑوں کے درمیان ھے یعنی زبان اور دوسری جو دو ٹانگوں کے درمیان ھے یعنی شرمگاہ۔۔ تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ھوں۔
اپنے شوہروں کی عزت،لباس اور بستر کی حفاظت کیجئے۔
معاشرے کی اصلاح کی طرف توجہ دیجیئے۔
نامحرم سے پردہ کیجئے۔۔۔خصوصاً جوان بچیاں۔۔۔ چہرہ چھپائے بغیر باہر نہ نکلیں۔
آپ کے شوہر شوق سے آپ سے دور نہیں ہیں ۔۔۔۔ وہ آپ کی ،اپنے والدین ،بہن بھائیوں اور اولاد کی ضروریات پوری کرنے کیلئے نہ جانے کہاں کہاں خاک چھانتے ہیں ۔۔ان کا خیال رکھیئے۔۔۔ انکے لئے دعا کیجئے۔
ان کے بستر کو آلودہ ھونے سے بچایئے۔۔۔۔
پہلے زمانے کی ایک کہاوت ھے کہ اگر لڑکی کا رشتہ کرنا ھوتو لڑکے کا کردار دیکھیں اور اگر لڑکے کیلئے چاہیئے تو لڑکی کی ماں کا کردار دیکھیں ۔۔۔۔کیونکہ نیک ماں بچے کی تربیت بھی اچھی کرے گی۔۔۔
اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دیجیئے۔۔۔ ایسا نہ ھو کہ آپکی ایک غلطی آپکو ساری عمر کیلئے انکی نظر میں گرا دے۔۔۔۔
زنا گناہِ کبیرہ ھے۔۔۔۔ یہ ناسور کی طرح ہمارے معاشرے میں پھیل رہا ھے۔۔۔
اسکے خاتمے کیلئے کوشش کیجئے۔۔۔۔۔
ایک ماں ایک نسل کی وارث ھوتی ھے،اپنی نسل کو ضائع ھونے سے بچایئے۔
جو عورت اپنے شوہر کی عزت کی پاسدار نہیں اسکیلئے آخر میں ایک چھوٹی سی بات کہوں گی۔
موت بڑی بے رحم ھے،دھیان رکھنا کہیں کسی غیر کے بستر پر نہ آ جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
یہ ناسور کی طرح ہمارے معاشرے میں پھیل رہا ھے۔۔۔
اسکے خاتمے کیلئے کوشش کیجئے۔۔۔۔
بہت اہم اور تکلیف دہ مسلہ جسکی طرف ادیب گاہے بگاہے دلاتے رہتے ہیں کبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں کبھی کھل کے ۔۔مالک ہدایت عطا فرمائے آمین یہ دونوں کے لئیے ہے !!!!!آپ کے اس لکھنے سے عمیرہ احمد یاد آگئیں اور قیدِ تنہائی یاد آگیا ۔۔۔ مرد اکثر وہاں جاکر شادی کرلیتے ہیں اور بیوی کو بالکل فراموش کردیتے ہیں ۔۔ اور سب سے دکھ کی بات کے گھر والے یعنی ماں باپ بجائے لڑکوں کو سمجھانے کے لڑکیوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں ۔۔کہیں خواتین غلط ہیں اور کہیں مرد کہیں دونوں درست کہا آپ نے موت تو کسی وقت بھی آ سکتی ہے اور پھر پروردگار محفوظ رکھے سب بہو بیٹیوں کو ۔۔۔...آمین
 
بہت اہم اور تکلیف دہ مسلہ جسکی طرف ادیب گاہے بگاہے دلاتے رہتے ہیں کبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں کبھی کھل کے ۔۔مالک ہدایت عطا فرمائے آمین یہ دونوں کے لئیے ہے !!!!!آپ کے اس لکھنے سے عمیرہ احمد یاد آگئیں اور قیدِ تنہائی یاد آگیا ۔۔۔ مرد اکثر وہاں جاکر شادی کرلیتے ہیں اور بیوی کو بالکل فراموش کردیتے ہیں ۔۔ اور سب سے دکھ کی بات کے گھر والے یعنی ماں باپ بجائے لڑکوں کو سمجھانے کے لڑکیوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں ۔۔کہیں خواتین غلط ہیں اور کہیں مرد کہیں دونوں درست کہا آپ نے موت تو کسی وقت بھی آ سکتی ہے اور پھر پروردگار محفوظ رکھے سب بہو بیٹیوں کو ۔۔۔...آمین
بہت شکریہ آپی جان۔ یہ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا اور تلخ مسئلہ ہے
 
بہن ھوں ،سکھی سہیلی ھوں
پھر بھی میں اکیلی ھوں
سو راز ہیں میرے سینے میں
پر کھلتی ھوئی چنبیلی ھوں
چاہے من اندر سے روتا ھو
باہر سے میں البیلی ھوں
کیوں جان سکے نہ تم مجھکو؟
کیا سچ مچ ایک پہیلی ھوں؟
ام عبد الوھاب
 

سیما علی

لائبریرین
بہن ھوں ،سکھی سہیلی ھوں
پھر بھی میں اکیلی ھوں
سو راز ہیں میرے سینے میں
پر کھلتی ھوئی چنبیلی ھوں
چاہے من اندر سے روتا ھو
باہر سے میں البیلی ھوں
کیوں جان سکے نہ تم مجھکو؟
کیا سچ مچ ایک پہیلی ھوں؟
ام عبد الوھاب
بہت خوب
سلامت رہیے شاد و آباد رہیے ڈھیر ساری دعائیں
 
تقریباً تین سال پہلے کی بات ہے گلی میں سے گزرتے ہوئے میری نظر اوپر گئی تو میں نے دیکھا کہ دیوار میں ایک پودا اگا ہوا ہے۔ پکی انیٹیں ،سیمنٹ سے بنی ہوئی دیوار ہے۔مگر پودا بہت سر سبز اور لہلہا رہا تھا۔کچھ عرصہ گزرا تو وہ پودا ہمارے گھر کی چھت سے نظر آنا شروع ہوگیا۔ مین روڈ پر دکانیں کرائے پر ہیں۔نیچے گراؤنڈ فلور پر ایک کرایہ دار ،اور فرسٹ فلور پر دوسرا کرایہ دار اور اس سے اوپر سیکنڈ فلور اور کرایہ دار ہوتے ہیں۔۔۔کوئی بھی کرایہ دار عمارت کی حفاطت یا صفائی ستھرائی پر توجہ نہیں دیتا۔
میں جب کبھی بھی چھت پر جاتی اس پودے کو ضرور دیکھتی،مجھے اس کے سوکھنے کا انتظار تھا۔کیونکہ ایسے پودے اکثر دیکھنے میں آتے ہیں جو کچھ دیر بعد سوکھ جاتے ہیں۔مگر یہ پودا نہیں سوکھا بلکہ بڑا ہی ہوتا جا رہا ہے۔کل شام جب میں چھت پر گئی تو میں نے ایک اور بات محسوس کی کہ اس پودے کے پیچھے ایک اور پودا ہے اور وہ بھی کافی بڑا ہو چکا ہے۔کیونکہ پتے ایک پودے کے نہیں بلکہ دو طرح کے نظر آ رہےتھے۔ یہ پودا نیچے کی منزلیں چھوڑ کر تیسری منزل کی دیوار میں ہے۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جسے اللہ رکھے،اسے کوئی مار نہیں سکتا۔ انیٹوں اور سیمنٹ کے علاوہ یہاں کچھ نہیں۔۔۔دیوار میں اگے ہوئے پودے کو پانی کہاں سے ملتا ہے،جب بارش ہوتی ھوگی تو دیوار گیلی ہو جاتی ہو گی بس۔
کیسی اللہ کی قدرت ہے۔
کوئی شک نہیں کہ وہ پتھر میں بھی کیڑے کو روزی دیتا ہے۔
ان اللہ علیٰ کل شی قدیر۔
104289064_297191268103634_8118812964790546727_n.jpg
 
فیس بک میموریز میں چند سال پہلے کی اس تحریر پر نظر پڑی، ہماری زندگی کا ایک مسئلہ،رانگ نمبر۔
رانگ نمبر کا سلسلہ کوئی نیا نہیں،لیکن جب سے یہ فری کال پیکجز عام ہوتے گئے،اس تفریح کو بھی دوام ملتا گیا،
میاں بیوی بیٹھے ہوئے ہیں کہ اتنے میں انجانے نمبر سے کال آئی۔شوہر نے بیوی کا فون لے کر ریسیو کیا،سامنے مردانہ آواز سنتے ہی ایک دم غصہ آیا موبائل کو زور سے پٹخا،موبائل دو ٹکڑے ،سم نکالی،سم کے دو ٹکڑے کیے اور طویل بحث اور جھگڑے کا اغاز۔۔۔۔(پتہ نہیں کون ہوگا
1f914.png
1f620.png
)
******** ******** ******
ماں اپنے بچوں کو اسکول کا ہوم ورک کروا رہی ہے ۔مما کا فون بجا،بچے نے ریسیو کیا۔۔۔مما کوئی انکل ہیں۔۔
ماں نے کہا بیٹا کہہ دو رونگ نمبر ہے۔۔
بڑا بچہ جو ابھی سن شعور میں داخل رہاکئی ماہ تک سوچتا رہا (پتہ نہیں کون ہوگا
1f914.png
1f610.png
)
******** ********* *******
بھابھی برتن دھو رہی ،فون بجا۔
نند سے ریکویسٹ کی کہ ریسیو کر لے،
"بھابھی کوئی جینٹس ہے"
کہہ دو رونگ نمبر ۔۔
نند گھنٹوں تک سوچتی رہی ۔بھابھی کے موبائل پر(پتہ نہیں کون ہوگا
1f914.png
1f612.png
)
******** ********* *******
یہ رانگ نمبر پر محض تفریح کے نام پر کال کرنے والے صاحبان ہمارے اردگرد ہمارے گھروں میں ہی پائے جاتے ہیں
کہیں ہمارا اپنا بھائی،بیٹا یا کوئی رشتہ دار ان کاموں میں تو نہیں؟؟؟؟
اگر آپ کسی ایسے کو جانتے ہیں تو اسے سمجھا کر اپنے حصے کا فرض ضرور ادا کیجئے
کہیں ذرا سی تفریح کسی کے گھر اجڑنے اور سکھ ختم ہونے کا ذریعہ نہ بن جائے
ذرا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔پورا سوچیے..!!
 
انس۔۔۔۔۔۔ان کی مضبوطی صرف اتنی ہے
کہ
وہ لہجوں ، لفظوں اور رویوں سے ہی ٹوٹ جاتا ہے.
محبوب کو دیکھنا
مح۔بت کی شرط نہیں ہوتی
کوئی بنا دیکھے
*
1f31f.png
اویس ق۔۔۔۔۔۔رنی علیہ سلام بن جاتا ہے*
اور
*
1f4a5.png
ک۔وئی پاس رہ کر بھی ابو جہل رہتا ہے*
*
1f31f.png
بات عقیدت و احت۔۔۔۔۔۔رام کی ہوتی ہے.*
*
1f31f.png
م۔۔۔۔۔۔اضی میں جو بھی تکلیف ہوئی ہو یا ملی ہو اسے بھول جائیں*
لیکن
*
1f490.png
اس ت۔۔۔۔۔۔کلیف سے ملا سبق ہمیشہ یاد رکھیں..*
 
ﺍﮔﺮ ﻣﺠﻬﮯ ﻣﺮﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﺗﻮ ....
ﻣﯿﮟ ﻣﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ....
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﺍ ....
ﺍﯾﮏ ﺑﮭﺮﭘﻮﺭ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ....
ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ ....
ﺍﻭﺭ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ... ؟
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮧ ﺭﺍﺣﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ....
ﺟﺐ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ....
ﮨﺮ ﺁﻧﮑﮫ ﺟﺐ ﺑﻬﯽ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﮨﻮ ....
ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﺘﺎﺗﯽ ﮨﻮ ....
ﮐﮧ ﮨﻢ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯿﮟ ....
ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻣﻮﺕ ﻣﮩﻠﺖ ﺩﯾﺘﯽ ....
ﺗﻮ ﺳﺐ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ....
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﯽ ﻟﯿﺘﮯ ....
ﭘﺮ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ....
ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﮨﻮﮞ ....
ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﺁﺋﯽ ﮨﻮﮞ ....
ﺑﻨﺎ ﺭﮐﮯ، ﺑﻨﺎ ﺳﻨﮯ،ﺑﻨﺎ ﮐﮩﮯ ....
ﻣﺠﻬﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮐﺮﺍﻧﺎ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ....
ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﮐﮧ ....
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ....
ﺭﺍﺱ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ....
ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﮐﮩﮯ، ﺑﻨﺎ ﺳﻨﮯ ....
ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ....
ﺍﻭﺭ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﺐ ....
ﺁﻧﮑﮫ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ....
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﯿﮟ ....
ﯾﮧ ﯾﮩﯿﮟ ﺗﻬﯽ ﺍﺑﻬﯽ ....
ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ....
ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﺐ ﻣﻮﺕ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﮔﯽ ....
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺁﻧﺎ ﻣﺠﻬﮯ ﺑﺲ .....
ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺁﻧﺎ ﮨﮯ ....
ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ....
ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭ ﮐﮧ ....
ﺗﺐ ﻣﻮﺕ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﮯ ....
ﺯﮨﮯ ﻧﺼﯿﺐ ....
ﯾﮩﺎﮞ ﺑﻬﯽ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﯽ ﮨﮯ .
(منقول)
 
Top