اساتذہ اصلاح و رہنمائی فرما دیں ۔۔

مومن فرحین

لائبریرین
السلام عليكم
اساتذہ کے پاس پھر ایک غزل لے کر حاضر ہوئی ہوں ۔۔۔ رہنمائی فرما دیں۔۔ نوازش ہوگی
محترم استاد الف عین صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن جی
محترم عاطف انکل
محترم راحل بھائی
محترم تابش بھائی
استاد فہد جی




دل میں ارماں ہزاروں جگاتے گئے
وہ ہمیں دیکھ کر مسکراتے گئے

جو نگاہوں سے دل میں سماتے گئے
وہ ہمیں سے نگاہیں چراتے گئے

ذہن و دل پر کچھ ایسے وہ چھاتے گئے
ہوش گویا ہمارے اڑاتے گئے

اس کی الفت نے رسوا کیا عمر بھر
اس کی یادوں سے پھر بھی نبھاتے گئے

وہ حقیقت میں اک پل میسر نہ تھا
خواب آنکھوں میں جس کے سجاتے گئے

ہم سے دیوانے گزرے ہیں جس راہ سے
دل کی بستی وہاں پر بساتے گئے

ہو کے برہم کبھی ، بن کے ہمدم کبھی
دل کی بے تابیوں کو بڑھاتے گئے

داغ دل پر لیے جن کی خاطر وہی
عمر بھر ہم سے دامن بچاتے گئے​


پتا ہے اساتذہ اس غزل میں صرف مطلع اور مقطع میں وزن کی غلطی ہوئی تھی ۔۔۔ باقی کسی میں تصحیح نہیں کرنی پڑی ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
وہ حقیقت میں اک پل میسر نہ تھا
خواب آنکھوں میں جس کے سجاتے گئے

ہو کے برہم کبھی ، بن کے ہمدم کبھی
دل کی بے تابیوں کو بڑھاتے گئے
دونوں اشعار میں ضمیر مجہول ہے، اس لیے فاعل کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ یعنی یہ واضح ہونا چاہیے کہ کون آنکھوں میں خواب سجاتا گیا اور کون بے تابیوں کو بڑھاتا گیا۔
علاوہ ازیں اقتباس حقیقت والے مصرعے میں ’’بھی‘‘ کی کمی بھی کھل رہی ہے۔

ہم سے دیوانے گزرے ہیں جس راہ سے
دل کی بستی وہاں پر بساتے گئے
پہلے مصرعے میں بھی ماضی کا صیغہ استعمال کرنا چاہیے۔ دوسرے کی بابت تابشؔ بھائی نے نکتہ اٹھا دیا ہے، ان سے متفق ہوں۔
 

مومن فرحین

لائبریرین
دونوں اشعار میں ضمیر مجہول ہے، اس لیے فاعل کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ یعنی یہ واضح ہونا چاہیے کہ کون آنکھوں میں خواب سجاتا گیا اور کون بے تابیوں کو بڑھاتا گیا۔
علاوہ ازیں اقتباس حقیقت والے مصرعے میں ’’بھی‘‘ کی کمی بھی کھل رہی ہے۔


پہلے مصرعے میں بھی ماضی کا صیغہ استعمال کرنا چاہیے۔ دوسرے کی بابت تابشؔ بھائی نے نکتہ اٹھا دیا ہے، ان سے متفق ہوں۔

اچھا بھائی میں غلطیاں درست کرنے کی کوشش کرتی ہوں پھر بتاتی ہوں ۔
 
ویسے راحل بھائی آپ کو مجھے الگ سے شاباشی دینی چاہیے تھی میں نے آپ کو ٹیگ کر ہی لیا آخر ۔۔۔۔:heehee:
بھئی پہلی بار تو تکا بھی لگ سکتا ہے ... جب تک دو تین بار کامیابی سے اعادہ کرکے نہیں دکھا دیتیں، آپ کو سند فضیلت عطا نہیں کی جا سکتی :)
 

مومن فرحین

لائبریرین
دل میں ارماں ہزاروں جگاتے گئے
وہ ہمیں دیکھ کر مسکراتے گئے

جو نگاہوں سے دل میں سماتے گئے
وہ ہمیں سے نگاہیں چراتے گئے

ذہن و دل پر کچھ ایسے وہ چھاتے گئے
ہوش گویا ہمارے اڑاتے گئے

اس کی الفت نے رسوا کیا عمر بھر
اس کی یادوں سے پھر بھی نبھاتے گئے

وہ حقیقت میں ہم کو ملا نہ کبھی
خواب آنکھوں میں جس کے سجاتے گئے

ہو کے برہم کبھی ، بن کے ہمدم کبھی
میری بے تابیوں کو بڑھاتے گئے

داغ دل پر لیے جن کی خاطر وہی
عمر بھر ہم سے دامن بچاتے گئے

میں نے مقطع بھی لکھا تھا پر اس میں جو غلطی ہو رہی تھی وہ میں درست نہیں کر پا رہی تھی ۔ اس لیے ہٹا دیا ۔
اب دیکھیں اساتذہ
 

مومن فرحین

لائبریرین
ایک سوال اور تھا کہ جو حسن مطلع کے بعد والا شعر ہوتا ہے کہ اس میں بھی دونوں مصرعوں میں قافیہ ہو تو اسے کیا کہیں گے ۔
 
آخری تدوین:
اس کی الفت نے رسوا کیا عمر بھر
اس کی یادوں سے پھر بھی نبھاتے گئے

ہو کے برہم کبھی ، بن کے ہمدم کبھی
میری بے تابیوں کو بڑھاتے گئے
ان اشعار میں تو کوئی تبدیلی کی ہی نہیں گئی ۔۔۔ مسئلہ اب بھی باقی ہے۔

وہ حقیقت میں ہم کو ملا نہ کبھی
خواب آنکھوں میں جس کے سجاتے گئے
نہ کو دو حرفی باندھنا اچھا نہیں۔
 

مومن فرحین

لائبریرین
اس کی الفت نے رسوا کیا ہے ہمیں
اس کی یادوں سے پھر بھی نبھاتے گئے

ہو کے برہم و ہمدم کبھی بن کے وہ
دل کی بے تابیوں کو بڑھاتے گئے

وہ حقیقت میں ہم کو میسر نہیں
خواب آنکھوں میں جس کے سجاتے گئے
 
س کی الفت نے رسوا کیا ہے ہمیں
اس کی یادوں سے پھر بھی نبھاتے گئے
پہلے مصرعے میں اُس کے بجائے جس کر دیں اور ہے کے بجائے تھا

ہو کے برہم و ہمدم کبھی بن کے وہ
دل کی بے تابیوں کو بڑھاتے گئے
پہلا مصرع پہلے والا ہی ٹھیک تھا، دوسرے کو یوں کیا جا سکتا ہے۔
دل کی بے تابیاں وہ بڑھاتے گئے

وہ حقیقت میں ہم کو میسر نہیں
خواب آنکھوں میں جس کے سجاتے گئے
وہ حقیقت میں ہم کو میسر نہ تھا
 
Top