سافٹ وئیر اپڈیٹ ہوگیا؟

بابا-جی

محفلین
خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔ جرنیل جب چاہیں عمران خان کو ٹیرن خان کیس میں پھنسا کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سیاست سے نااہل کر سکتے ہیں
خانِ اعظم نے کشتیاں جلا دِی ہیں اور وہ جان کی بازی لگا کر میدان میں اُترا ہے۔ عدالتیں خان سے متعلق نرم گوشہ رکھتی ہیں اور جسٹس اطہر من اللہ نے صاف کہہ دیا تھا کہ خبردار ایسا کوئی کیس لے کر کورٹ نہ آئے ورنہ اُس کے خلاف کیس بنا دیا جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
خانِ اعظم نے کشتیاں جلا دِی ہیں اور وہ جان کی بازی لگا کر میدان میں اُترا ہے۔ عدالت خان سے متعلق نرم گوشہ رکھتی ہیں اور جسٹس اطہر من اللہ نے صاف کہہ دیا تھا کہ خبردار ایسا کوئی کیس لے کر کورٹ نہ آئے ورنہ اُس کے خلاف کیس بنا دیا جائے گا۔
چلیں جب خان صاحب جرنیلوں کے خلاف کھڑے ہوں گے تو ہم بھی ان کا ساتھ دیں گے۔ فی الحال تو وزیر اعظم ملک کے اہم ترین عہدوں پر فوجی افسران بٹھانے کے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں:
6itwz5rpoyl51.jpg

zwud59xpoyl51.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
ساجد گوندل کی اہلیہ نے وزیر اعظم عمران خان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور میڈیا کا ساجد گوندل کی بازیابی میں کلیدی کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
 

بابا-جی

محفلین
ساجد گوندل کی اہلیہ نے وزیر اعظم عمران خان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور میڈیا کا ساجد گوندل کی بازیابی میں کلیدی کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
شکر ہے کہ آرمی چِیف کا شکریہ ادا نہیں کِیا۔ عمران خان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی کاوشوں سے ساجد گوندل بازیاب ہوئے۔ خان جرنیلوں سے ٹکرا گیا اور گوندل کو رہا کروایا۔ عمران خان نے کوئی سفارش ماننے سے اِنکار کر کے اپنی اہمیت منوائی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
شکر ہے کہ آرمی چِیف کا شکریہ ادا نہیں کِیا۔ عمران خان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی کاوشوں سے ساجد گوندل بازیاب ہوئے۔ خان جرنیلوں سے ٹکرا گیا اور گوندل کو رہا کروایا۔ عمران خان نے کوئی سفارش ماننے سے اِنکار کر کے اپنی اہمیت منوائی ہے۔
اس معاملہ میں جج اور حکومت ایک پیج پر تھے اس لئے جرنیلوں کو سرنڈر کرنا پڑا
 

جاسم محمد

محفلین
شکر ہے کہ آرمی چِیف کا شکریہ ادا نہیں کِیا۔ عمران خان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی کاوشوں سے ساجد گوندل بازیاب ہوئے۔ خان جرنیلوں سے ٹکرا گیا اور گوندل کو رہا کروایا۔ عمران خان نے کوئی سفارش ماننے سے اِنکار کر کے اپنی اہمیت منوائی ہے۔
گزشتہ ہفتے عاصم باجوہ کی طرف سے وضاحت جاری کرنے کے فوراً بعد سیکیورٹیز ایند ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کےجوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل کی گمشدگی کی خبریں سامنے آئیں۔ ایسی پراسرار گمشدگیاں عام طور پر ایجنسیوں کے کھاتے میں ہی جاتی ہیں، خاص کر اس وقت جب کہ اغوا ہونے والے شخص کا کسی حساس معاملے سے تعلق بنتا ہو۔
بہرحال، ساجد گوندل بحفاظت گھر پہنچ گیا ہے اور اس کے ٹویٹ کے مطابق وہ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا تھا۔ یاد رہے، ساجد گوندل کی گاڑی اسلام آباد کے محکمہ زراعت کے دفتر کے قریب لاوارث حالت میں ملی تھی، اور پچھلے پانچ دنوں سے اس کی بیوی ٹی وی اور سوشل میڈیا پر اپنے خاوند کی بازیابی کی اپیل کررہی تھی۔ یہ عجیب شمالی علاقہ جات کی سیاحت تھی کہ ایک پڑھا لکھا سرکاری افسر بغیر بتائے سیر کیلئے چلا گیا اور اپنی گاڑی لاوارث جگہ چھوڑ گیا۔
ایسا لگ رہا ہے کہ احمد نورانی نے باجکو گروپ اور عاصم باجوہ کے بیٹوں کی کمپنیوں کے رجسٹریشن کے جو ڈاکومنٹس شئیر کئے تھے، ان کا کُھرا ساجد گوندل کے گھر جا نکلا تھا، چنانچہ اسے اٹھوا لیا گیا۔ دوسرا امکان یہ بھی ہے کہ عاصم باجوہ سے متعلقہ کچھ مزید ڈاکومنٹس بھی سامنے آسکتے تھے، انہیں روکنے کیلئے بھی یہ پیشقدمی کی گئی تھی۔
باٹم لائن یہ ہے کہ اس ملک میں قانون کی بالادستی نام کی طوائف کا کوٹھا اجڑ چکا ہے اور اسے اجاڑنے والے تماش بینوں میں سیاستدان اور وردی والے، دونوں شامل ہیں۔
کیا آپ ایسا ملک چاہتے ہیں کہ جہاں اگر کسی طاقتور کے اثاثوں پر سوال اٹھایا جائے تو سوال کرنے والے کو ہی اٹھا لیا جائے؟
ایسا تو پتھر کے دور میں بھی نہیں ہوتا تھا۔
ان رویوں کی وجہ سے ہی پاکستان ابھی تک ہر معاملے میں دنیا کے آخری پانچ، دس ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ اگر آپ قانون کی بالادستی پر یقین نہیں رکھتے اور بندوق کے زور پر اپنی اتھارٹی تسلیم کروانے پر یقین رکھتے ہیں تو یاد رکھیں، ایسی ریاستیں قائم نہیں رہ سکتیں، اور جب ریاست ہی نہ رہے، تو پھر کہاں کی وردی، کہاں کی بالادستی۔
فوج سمیت ہر ادارے کو اپنی اوقات میں واپس جانا ہوگا۔ اگر ملک آگے بڑھانا ہے تو ان لوگوں کو پیچھے ہٹانا ہوگا!!! بقلم خود باباکوڈا
 

بابا-جی

محفلین
گزشتہ ہفتے عاصم باجوہ کی طرف سے وضاحت جاری کرنے کے فوراً بعد سیکیورٹیز ایند ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کےجوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل کی گمشدگی کی خبریں سامنے آئیں۔ ایسی پراسرار گمشدگیاں عام طور پر ایجنسیوں کے کھاتے میں ہی جاتی ہیں، خاص کر اس وقت جب کہ اغوا ہونے والے شخص کا کسی حساس معاملے سے تعلق بنتا ہو۔
بہرحال، ساجد گوندل بحفاظت گھر پہنچ گیا ہے اور اس کے ٹویٹ کے مطابق وہ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا تھا۔ یاد رہے، ساجد گوندل کی گاڑی اسلام آباد کے محکمہ زراعت کے دفتر کے قریب لاوارث حالت میں ملی تھی، اور پچھلے پانچ دنوں سے اس کی بیوی ٹی وی اور سوشل میڈیا پر اپنے خاوند کی بازیابی کی اپیل کررہی تھی۔ یہ عجیب شمالی علاقہ جات کی سیاحت تھی کہ ایک پڑھا لکھا سرکاری افسر بغیر بتائے سیر کیلئے چلا گیا اور اپنی گاڑی لاوارث جگہ چھوڑ گیا۔
ایسا لگ رہا ہے کہ احمد نورانی نے باجکو گروپ اور عاصم باجوہ کے بیٹوں کی کمپنیوں کے رجسٹریشن کے جو ڈاکومنٹس شئیر کئے تھے، ان کا کُھرا ساجد گوندل کے گھر جا نکلا تھا، چنانچہ اسے اٹھوا لیا گیا۔ دوسرا امکان یہ بھی ہے کہ عاصم باجوہ سے متعلقہ کچھ مزید ڈاکومنٹس بھی سامنے آسکتے تھے، انہیں روکنے کیلئے بھی یہ پیشقدمی کی گئی تھی۔
باٹم لائن یہ ہے کہ اس ملک میں قانون کی بالادستی نام کی طوائف کا کوٹھا اجڑ چکا ہے اور اسے اجاڑنے والے تماش بینوں میں سیاستدان اور وردی والے، دونوں شامل ہیں۔
کیا آپ ایسا ملک چاہتے ہیں کہ جہاں اگر کسی طاقتور کے اثاثوں پر سوال اٹھایا جائے تو سوال کرنے والے کو ہی اٹھا لیا جائے؟
ایسا تو پتھر کے دور میں بھی نہیں ہوتا تھا۔
ان رویوں کی وجہ سے ہی پاکستان ابھی تک ہر معاملے میں دنیا کے آخری پانچ، دس ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ اگر آپ قانون کی بالادستی پر یقین نہیں رکھتے اور بندوق کے زور پر اپنی اتھارٹی تسلیم کروانے پر یقین رکھتے ہیں تو یاد رکھیں، ایسی ریاستیں قائم نہیں رہ سکتیں، اور جب ریاست ہی نہ رہے، تو پھر کہاں کی وردی، کہاں کی بالادستی۔
فوج سمیت ہر ادارے کو اپنی اوقات میں واپس جانا ہوگا۔ اگر ملک آگے بڑھانا ہے تو ان لوگوں کو پیچھے ہٹانا ہوگا!!! بقلم خود باباکوڈا
کوڈے نے بھی شمالی علاقہ جات کی سیر کرنی ہے جو سِیدھے فائر لگا رہا ہے۔
 
ابھی جو لوگ ساجد گوندل کے بیان کا مذاق اڑا رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو ان کو بازیاب کروانے میں پیش پیش تھے۔ ان کو خوشی نہیں ہے کہ ساجد گوندل صحیح سلامت گھر واپس آ گئے ہیں۔ بلکہ تکلیف یہ ہے کہ وہ اپنے اغوا کاروں کا نام کیوں نہیں لے رہے؟


کوئی بھی اتنا بھولا نہیں کہ ان بیانات کو ساجد کا مذاق اڑانے کی کوشش سمجھے۔ یہ تو کسی اور کی عقلوں کا ماتم ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کوڈے نے بھی شمالی علاقہ جات کی سیر کرنی ہے جو سِیدھے فائر لگا رہا ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں کہیں بھی سرکاری افسران کو ڈرائیور، خانساماں اور گارڈ کی سہولیات نہیں دی جاتیں، حالانکہ ان کے پاس پیسہ بھی ہے اور وسائل بھی۔
دوسری طرف پاکستان میں سول اور ملٹری افسران کو ڈرائیور، باورچی، گارڈز اور دفاتر میں چپڑاسی اور آفس بوائیز فراہم کئے جاتے ہیں جن کی تنخواہیں عوام کے ٹیکسوں سے ادا کی جاتی ہیں۔
یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں جو ہر سال قرضہ نہ لے تو اس کے پاس تنخواہیں دینے کے پیسے نہ ہوں۔ اس کے باوجود بیوروکریسی کو عیاشی ایسے کروائی جاتی ہے جیسے دنیا کے تمام وسائل پر ہمارا قبضہ ہو۔
ہمیں بھی دنیا کی ایسی ریاست میں ہی پیدا ہونا تھا، جہاں سیاستدان، فوج اور بیروکریسی اس ملک کو ایسے نوچ رہے ہیں جیسے صدیوں کے بھوکے گدھ کسی جانور کی لاش کو بھنبھوڑتے ہیں!!! بقلم خود باباکوڈا
 

بابا-جی

محفلین
امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں کہیں بھی سرکاری افسران کو ڈرائیور، خانساماں اور گارڈ کی سہولیات نہیں دی جاتیں، حالانکہ ان کے پاس پیسہ بھی ہے اور وسائل بھی۔
دوسری طرف پاکستان میں سول اور ملٹری افسران کو ڈرائیور، باورچی، گارڈز اور دفاتر میں چپڑاسی اور آفس بوائیز فراہم کئے جاتے ہیں جن کی تنخواہیں عوام کے ٹیکسوں سے ادا کی جاتی ہیں۔
یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں جو ہر سال قرضہ نہ لے تو اس کے پاس تنخواہیں دینے کے پیسے نہ ہوں۔ اس کے باوجود بیوروکریسی کو عیاشی ایسے کروائی جاتی ہے جیسے دنیا کے تمام وسائل پر ہمارا قبضہ ہو۔
ہمیں بھی دنیا کی ایسی ریاست میں ہی پیدا ہونا تھا، جہاں سیاستدان، فوج اور بیروکریسی اس ملک کو ایسے نوچ رہے ہیں جیسے صدیوں کے بھوکے گدھ کسی جانور کی لاش کو بھنبھوڑتے ہیں!!! بقلم خود باباکوڈا
کہاں جانا پسند کرے گا بابا کوڈا؟ ناران، کاغان یا سپیشل پیکج پر گلگت، سکردو وغیرہ؟ روک دو، اسے روک دو بھئی۔ ایک دو اور پوسٹیں ایسی لگا گیا تو کسی کینہ پرور کے ہاتھ لگ جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
کہاں جانا پسند کرے گا بابا کوڈا؟ ناران، کاغان یا سپیشل پیکج پر گلگت، سکردو وغیرہ؟ روک دو، اسے روک دو بھئی۔ ایک دو اور پوسٹیں ایسی لگا گیا تو کسی کینہ پرور کے ہاتھ لگ جائے گا۔
مجھے تو لگتا ہے یہ خود چاہتا ہے کہ اغوا ہو کر مشہور ہو جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
صحافی بلال فاروقی گرفتار، فوج کے خلاف بغاوت پر اکسانے اور مذہبی منافرت پھیلانے کا الزام
11 ستمبر 2020، 21:35 PKT
اپ ڈیٹ کی گئی 9 منٹ قبل
_114327486_13103895-4ae6-429b-9b68-d455294d7dad.jpg

،تصویر کا ذریعہTwitter/@bilalfqi

،تصویر کا کیپشن
بلال فاروقی انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبیون کے ساتھ وابستہ ہیں

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں صحافی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر متحرک بلال فاروقی کے خلاف پاکستان آرمی کے خلاف بغاوت پر اکسانے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے اور انھیں ان کے گھر سے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

بلال فاروقی انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبیون کے ساتھ وابستہ ہیں۔

بلال فاروقی کے خلاف درج مقدمے کی تفصیلات

بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق ڈیفنس تھانے میں جاوید خان ولد احمد خان نامی شخص کی مدعیت میں دائر مقدمے میں مدعی نے الزام عائد کیا ہے کہ وہ لانڈھی میں ایک فیکٹری میں مشین آپریٹر ہیں، 9 ستمبر کو بارہ بجے وہ ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی میں فیز ٹو ایکسٹییشن میں ماسٹر جوس میں کسی کام سے گئے تھے اور بارہ بجے کے قریب انھوں ںے اپنا فیس بک اور ٹوئٹر چیک کیا۔

ان کے مطابق انھوں نے بلال فاروقی کے نام سے فیس بک اور ٹوئٹر پر کچھ مواد دیکھا جس پر ’انتہائی اشتعال انگیز‘ پوسٹس تھیں، جن میں ’پاکستان آرمی کے خلاف اور مذہبی منافرت پر مبنی مواد پایا گیا‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ بلال نے پاکستان ’آرمی سے بغاوت کرنے کا مواد شائع کیا‘ جبکہ وہ پہلے سے ہی ’تواتر سے اشتعال انگیز مواد اور تصاویر شائع کرتے رہے ہیں‘۔

ایف آئی آر کے مطابق بلال نے اپنی پوسٹس کے ذریعے ’پاکستان کی افواج کو بدنام کیا اور یہ پوسٹس وطن دشمن اپنے ناجائز مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں، لہٰذا میں رپورٹ کرنے آیا ہوں قانونی کارروائی کی جائے۔‘

یہ مقدمہ 500 اور 505 پی پی سی کے تحت پاکستان فوج کے خلاف عوام کو بھڑکانے کے الزام میں درج کیا گیا ہے

الزام ثابت ہونے پر اس جرم کی کم از کم سزا دو سال اور جرمانہ ہے۔ ایف آئی آر میں پروینشن آف الیکٹرانک کرائم (پیکا) کی دفعہ 11 اور 2 بھی شامل کی گئی ہیں جس کے تحت فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے خلاف نفرت انگیز مواد کی تشہیر ہے جس کی سزا سات سال یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہیں۔

بلال فاروقی کی اہلیہ تاشفین فاروقی کا موقف
بلال فاروقی کی اہلیہ تاشفین فاروقی نے بی بی سی کے اعظم خان کو بتایا کہ شام پونے سات بجے کے قریب چار افراد جن میں سے ’دو سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے جبکہ دو نے پولیس کا یونیفارم پہن رکھا تھا ان کے گھر آئے اور کہا کہ وہ کوئی سروے کر رہے ہیں۔‘

تاشفین فاروقی کے مطابق اس وقت بلال سوئے ہوئے تھے مگر ان افراد کے اصرار کرنے پر وہ باہر گئے مگر پھر واپس نہیں آئے۔

_114331987_bf56c146-ad7e-40b4-a6ef-c72ba7c7d36f.jpg

،تصویر کا ذریعہFacebook/Bilal Farooqi

،تصویر کا کیپشن
بلال فاروقی (بائیں جانب)

بلال فاروقی کی اہلیہ تاشفین فاروقی کے مطابق تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ افراد دوبارہ گھر آئے اور بلال کا موبائل مانگا جو گھر پر ہی رہ گیا تھا۔ تاشفین فاروقی کے مطابق انھوں نے موبائل دینے سے انکار کیا اور ان سے پوچھا کہ کیوں وہ اس طرح ان کے خاوند کو لے گئے ہیں۔

ان کے مطابق ’اس کے بعد ان افراد نے دروازے کو دھکا دیا اور زبردستی موبائل چھین کر لے گئے۔‘

تاشفین فاروقی کے مطابق انھوں نے اس موقع پر ان افراد سے لڑائی بھی کی کہ وہ ایسے کیسے زبردستی کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ان افراد نے بلال سے ان کی مختصر بات بھی کرائی۔

تاشفین کے مطابق ’بلال نے مجھے بتایا کہ انھیں ڈیفنس تھانے میں رکھا ہوا ہے بس آپ یہ بات سب کو بتا دینا۔‘

ان کے مطابق ’میں نے ان افراد کو کہا کہ آپ مجھے بھی بلال کے ساتھ لے جائیں تو انھوں نے کہا کہ یہ کرائے کا کوئی معاملہ ہے، جب کارروائی پوری ہوگی تو چھوڑ دیں گے اور یہ آپ عورتوں کا معاملہ نہیں ہے، جس کے بعد میں نے کہا مجھے انسان سمجھیں عورت کا طعنہ نہ دیں۔‘

تاشفین کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے بلال ایک ہفتہ دفتر اور ایک ہفتہ گھر سے کام کرتا تھا۔ یہ ہفتہ ان کا گھر سے کام کرنے کا تھا۔
 

بابا-جی

محفلین
خیر، یہ تو کُچھ غلط نہیں کہ قانونی طریقے اختیار کیے جائیں۔ اِس طرح حدود و قیود وضع ہو جائیں گی۔ دیگر صحافیوں میں جان ہے تو ساتھ دیں وگرنہ جیلیں اُن کی منتظر ہیں۔ یہ ڈرائینگ رُوم صحافی ہیں اِس لیے فوجی جو چال چل رہے ہیں، اِس میں اُن کی کامیابی کا اِمکان زِیادہ ہے۔ اب جیلوں میں سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہوا کریں گے اور انہیں ایک لیگل کور مل جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
خیر، یہ تو کُچھ غلط نہیں کہ قانونی طریقے اختیار کیے جائیں۔ اِس طرح حدود و قیود وضع ہو جائیں گی۔ دیگر صحافیوں میں جان ہے تو ساتھ دیں وگرنہ جیلیں اُن کی منتظر ہیں۔ یہ ڈرائینگ رُوم صحافی ہیں اِس لیے فوجی جو چال چل رہے ہیں، اِس میں اُن کی کامیابی کا اِمکان زِیادہ ہے۔ اب جیلوں میں سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہوا کریں گے اور انہیں ایک لیگل کور مل جائے گا۔
یہی تو مسئلہ ہے ان لفافوں میں۔ اگر کوئی گرفتاری قانون کے تحت بھی ہوئی ہو تو یہ اسے فوج اور ایجنسیوں پر ڈال دیتے ہیں۔
 

بابا-جی

محفلین
یہی تو مسئلہ ہے ان لفافوں میں۔ اگر کوئی گرفتاری قانون کے تحت بھی ہوئی ہو تو یہ اسے فوج اور ایجنسیوں پر ڈال دیتے ہیں۔
یہ آخری معرکہ ہے اور اس کے بعد جو بغاوت ہو گی تو فوجی بیک فُٹ پر چلے جائیں گے۔ عاصم باجوہ کیس اِن کے گلے پڑ گیا ہے۔ خانِ اعظم کو جیسے ہی موقع ملا، باجوہ جونئیر کو نکال باہر کریں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ آخری معرکہ ہے اور اس کے بعد جو بغاوت ہو گی تو فوجی بیک فُٹ پر چلے جائیں گے۔ عاصم باجوہ کیس اِن کے گلے پڑ گیا ہے۔ خانِ اعظم کو جیسے ہی موقع ملا، باجوہ جونئیر کو نکال باہر کریں گے۔
صحافی اسد علی طور پر فوج کے خلاف ’ہرزہ سرائی‘ کے الزام میں مقدمہ
2 گھنٹے قبل
_114372215_fc5f43fa-8480-440c-a6d7-9d23168a3a0d.jpg

،تصویر کا ذریعہASAD ALI TOOR

،تصویر کا کیپشن
اسد طور فی الوقت نجی ٹی وی چینل سما سے منسلک ہیں تاہم انھوں نے حال ہی میں یہ نوکری چھوڑنے کا اعلان کیا تھا

پاکستان کے شہر راولپنڈی کی پولیس نے سوشل میڈیا پر پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے، پوسٹس اور تبصرہ کرنے کے الزام میں صحافی اسد طور کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔

اسد طور فی الوقت نجی ٹی وی چینل سما سے منسلک ہیں تاہم انھوں نے حال ہی میں یہ نوکری چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اسد طور کے خلاف یہ مقدمہ راولپنڈی کے نواحی علاقے تھانہ جاتلی میں نصیرآباد کے رہائشی حافظ احتشام کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے اور تاحال اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ چند روز کے دوران یہ اس نوعیت کا تیسرا مقدمہ ہے جو کسی صحافی کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

اس سے پہلے صحافی اور پاکستانی الیکٹرانک میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی یعنی پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم کے خلاف ضلع جہلم کی تحصیل دینہ میں بھی فوج کے خلاف اکسانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا اور اس سے پہلے کراچی میں صحافی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر متحرک بلال فاروقی کے خلاف پاکستان آرمی کے خلاف بغاوت پر اکسانے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبیون سے وابستہ بلال فاروقی کو تو ان کے گھر سے حراست میں بھی لیا گیا تھا تاہم سوشل میڈیا پر ردعمل کے بعد انھیں شخصی ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔

اسد طور کے خلاف کیس میں راولپنڈی میں مدعی مقدمہ نے متعلقہ تھانے میں درخواست دی کہ وہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں جہاں پر انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اسد طور نامی شخص جس کا سوشل میڈیا پر اکاونٹ ہے، کچھ عرصے سے پاکستانی اداروں اور بالخصوص ’فوج کے خلاف منفی پروپگینڈہ‘ کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس شخص نے سوشل میڈیا پر ان اداروں کے خلاف ’نازیبا‘ الفاظ استعمال کیے ہیں۔

اس درخواست کے ساتھ مدعی مقدمہ نے ملزم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے پوسٹس کے سکرین شاٹس بھی لگائے ہیں جس میں مبینہ طور پر فوج کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی گئی ہے۔

اس درخواست پر مقامی پولیس نے اسد طور کے خلاف تعزیرات پاکستان کی وفعہ 499،500 اور 505 کے علاوہ پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔

رابطہ کرنے پر اسد علی طور نے بی بی سی کو بتایا کہ ’من گھڑت الزامات‘ پر مقدمہ درج کر کے اُنھیں ’ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘۔

اُنھوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات آزادی اظہارِ رائے کو دبانے کی ایک کوشش ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ اس مقدمے کے خلاف عدالتوں میں جائیں گے جہاں سے اُنھیں انصاف ملنے کی امید ہے۔

جب تھانہ جاتلی کے ایس ایچ او عباس علی سے رابطہ کیا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ اس مقدمے کی تفتیش تھانہ گوجر خان کے ایس ایچ او کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ چونکہ سب انسپکٹر ہیں جبکہ پریونشن آف کرائم ایکٹ کے تحت درج ہونے والے مقدمے کی تفتیش انسپکٹر رینک کا افسر کرتا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے جب سوشل میڈیا پر اپنے شوہر کے خلاف ’نازیبا زبان‘ کے استعمال پر رپورٹ درج کروانے کے لیے اسلام آباد کے تھانہ سیکریٹریٹ میں درخواست دی تھی تو پولیس نے یہ کہہ کر مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا تھا کہ چونکہ یہ سوشل میڈیا کا معاملہ ہے اس لیے ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ ہی مقدمہ درج کرنے کا مجاز ہے۔
 
Top