مانسہرہ: مدرسے میں بچے سے زیادتی کے مرکزی ملزم شمس الدین کا سرکاری سکول کے استاد ہونے کا انکشاف

جاسم محمد

محفلین
مانسہرہ: مدرسے میں بچے سے زیادتی کے مرکزی ملزم شمس الدین کا سرکاری سکول کے استاد ہونے کا انکشاف

نیا دور
دسمبر 28, 2019

مانسہرہ میں بچے سے ہونے والی مبینہ زیادتی کے مرکزی ملزم شمس الدین کا سرکاری سکول کے استاد ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس خبر کے سامنے آنے کے بعد محکمہ تعلیم بھی حرکت میں آ گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ملزم گورنمنٹ ہائی سکول ٹھاکر میرا میں معلم ہے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر(ڈی ای او) مانسہرہ نے جنسی زیادتی کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی قائم کیے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔

اس ضمن میں مشیر تعلیم کا کہنا ہے کہ الزام ثابت ہونے کی صورت میں سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز کوہستان کے رہائشی 10 سالہ بچے سے مانسہرہ کے ایک مدرسے میں استاد کے مبینہ طور پر 100 سے زائد مرتبہ زیادتی کیے جانے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ بچے کی حالت انتہائی غیر ہونے پر اسے ہسپتال لایا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق بچے کو ایوب میڈیکل کمپلیکس لایا گیا جہاں بچے کے چچا کو معلوم ہوا کہ اس بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے۔

مانسہرہ میں پولیس کے اہلکاروں کے پاس علی گوہر نامی شخص نے رپورٹ درج کرائی کہ انھوں نے اپنے دس سالہ بھتیجے کو دو سے تین ماہ پہلے مدرسے میں داخل کرایا تھا۔ چند روز پہلے انھیں ٹیلیفون پر اطلاع ملی کہ ان کے بھتیجے کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے، تو وہ خود اس وقت اپنی بیٹی کے علاج کے لیے ہسپتال میں موجود تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مدرسے کے ایک استاد نے چچا کی درخواست پر بچے کو ہسپتال پہنچا دیا جہاں طبی معائنے سے معلوم ہوا کہ بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کے علاوہ بچے پر جسمانی تشدد بھی کیا گیا تھا۔

110324802_gettyimages-485280877-300x169.jpg


مانسہرہ کے ضلع پولیس افسر صادق بلوچ کے مطابق اس واقعہ کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ملزم نے بچے کے ساتھ زیادتی کے علاوہ بچے کو جان سے مارنے کی کوشش بھی کی ہے جس پر ایف آئی آر میں مزید دفعات شامل کی گئی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں جبکہ جرم میں شریک معاونین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مذکورہ مدرسے کو سیل کر دیا گیا ہے اور ملزم کی گرفتاری کے لیے پولیس کی ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق بچے کے والد کوہستان میں محنت مزدوری کرتے ہیں جبکہ چچا مانسہرہ میں دکاندار ہیں۔ بچے کا ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں اور یہ بچہ سب سے بڑا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مانسہرہ کے دس سالہ بچے سے ہونے والے گھناؤنے سلوک کی ایف آئی آر۔

جائے وقوعہ: مدرسہ تعلیم القرآن
ملزم: قاری شمس الدین
ملزم کا تعلق: مدرسے کے مہتمم کا سگا بھائی
جرم کی نوعیت: دس سالہ معصوم بچے سے مسلسل کئی روز تک بدفعلی

جرم کی مختصر روداد:
قاری شمس الدین نے بچے کو مدرسے کے ایک کمرے میں بلا کر زبردستی بدفعلی کی، بچے نے شور مچایا تو قاری شمس الدین نے اپنے بھائی اور دوسرے لوگوں کو بلا کر بچے کو ڈنڈوں سے مارا پیٹا اور دھمکی دی کہ اگر اس نے منہ کھولا تو مزید مار پڑے گی۔

یہ عمل کئی روز تک جاری رہا، مسلسل بدفعلی کے باعث ایک دن جب وہ بچہ نیم بے ہوش ہوگیا تو مدرسے کے قاری نے بچے کے سرپرست کو کال کرکے اس کی خرابئی صحت کی اطلاع دی جس پر اسے اے ٹی ایچ ہاسپٹل لایا گیا، بچے کا ابتدائی معائنہ کرنے پر اس کی زیریں حصے پر تشدد اور بدفعلی کے نشانات ملے، ڈاکٹرز کے مطابق یہ عمل کم از کم سو مرتبہ کیا گیا۔

واقعہ پر علما کا ردعمل: لمبی خاموشی
واقعہ پر علما کا ابتدائی ردعمل: یہ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں
واقعہ پر علما کا دوسرا ردعمل: ملزم سرکاری سکول کا ٹیچر ہے، اس لئے مولویوں پر الزام مت دو

قصہ مختصر:
مولویت اس روئے زمین کا بدترین فتنہ ہے، ان سے اس ملک کو پاک کریں، سکولوں میں دینی تعلیم کا انتظام کریں، چاہے ایک پیریڈ زائد پڑھانا پڑے، بچوں کو قرآن اور دین سکولوں میں ہی سکھایا جائے اور سکھانے والے بھی مولوی کی بجائے پڑھے لکھے شریف النفس لوگ ہوں۔

مولویت ایک ناسور ہے، اس ناسور سے اس امت کو پاک کرنا ہوگا!!! بقلم خود باباکوڈا
80651782_2742130015854936_6763343876422893568_n.png
 

جاسم محمد

محفلین
معاملہ مزید سنگین ہوگیا ہے۔

قاری شمس الدین نامی درندہ محمکہ تعلیم کا ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ مدرسہ تعلیم القرآن بھی چلا رہا تھا۔ دس سالہ بچے کے ساتھ مسلسل کئی روز تک سو سے زائد مرتبہ زیادتی کرنے کیلئے مدرسہ تعلیم القرآن کا حجرہ استعمال ہوتا رہا۔

اس قبیح فعل میں اس کی معاونت مدرسہ تعلیم القرآن کا مہتمم کرتا رہا جو کہ اس کا سگا بھائی ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق مدرسے کے سینئر لوگ بھی اس بدفعلی کے عمل میں شریک رہے اور معصوم بچے کو ڈنڈوں سے مار مار کر دھمکاتے رہے اور بدفعلی پر مجبور کرتے رہے۔

ابھی تو یہ دیگ کا صرف ایک دانہ ہے، اس مدرسے میں پڑھنے والے پتہ نہیں کتنے بچے اس مکروہ مولویت کا نشانہ بنتے آئے لیکن ڈر کے مارے زبان نہ کھول سکے۔

صرف یہی مدرسہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کے کونے کونے میں پھیلے مدرسوں میں یہی عمل چل رہا ہے۔

آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان مدارس سے وابستہ لوگ کیا دین کی سربلندی کیلئے یہ مدارس چلا رہے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ان مدارس سے ان مولویوں کا رزق وابستہ ہے، سیاسی مفاد جڑا ہوا ہے اور یہیں سے ان کو تحفظ دینے کیلئے طاقت ملتی ہے۔

ان مدارس کو ریگولرائز کرنے کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالیں۔ مولویت کو جڑ سے اکھاڑ کر پڑھے لکھے اور قابل لوگوں کو دینی تعلیم دینے کی ذمے داری سونپیں۔ ڈاکٹر اسرار جیسے چند درجن قابل اور مخلص لوگوں کو تلاش کرکے آگے لائیں، ان کے ہاتھ ان مدارس کا انتظام سونپیں اور بتدریج انہیں تعلیمی نظام کے انڈر کریں۔

یہ مدارس اور ان میں بیٹھے جنسی درندے آپ کی نسل کیلئے خطرہ ہیں، اپنے معصوم بچوں کو ان درندوں سے بچائیں ورنہ کیا فائدہ ان سب سہولیات کا جو آپ اپنے بچوں کو دینے کیلئے دن رات محنت کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ جب ان کی عزت محفوظ نہیں، جب ان کی روح کچلی جائے تو پھر ان سہولیات کا کیا کریں گے؟؟؟ بقلم خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
سرعام پھانسی۔۔۔۔۔۔ مشرف کو تین دن لٹکانے کے ساتھ ساتھ ایسے درندوں کو ایک ہفتے کے لئے لٹکانا چاہیئے
اس سے پہلے بھی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ، بدفعلی کرنے والے درندے کئی بار لٹکائے جا چکے ہیں۔ البتہ اس سے ان سانحات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
 

یاقوت

محفلین
محترم یونیورسٹیز میں بھی طالبات کو جنسی ہراسگی کا نشانہ(اپنے ہم مکتب طلباء اور اپنے پروفیسرز کے ذریعے) بنانے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں تو کیا ہم اس سے یہ مطلب اخذکریں کہ یہ ادارے بھی بند کردینے چاہییں؟؟؟؟ یا انہیں کسی اور کی تحویل میں دے دینا چاہیے؟؟؟؟؟؟ ڈائیلاگ کے پرچارک جب طبقہ علماء میں موجود کالی بھیڑوں کی کوئی کرتوت سامنے آتی ہے تو کیوں ڈائیلاگ کی راہ چھوڑ کر سیدھا ایکشن فلم کی شوٹنگ کا مطالبہ کرتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
غیر جانبدار تحقیقات میں اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو جو دل چاہے سزا دیں کس کو اعتراض ہو سکتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

یاقوت

محفلین
اس سے پہلے بھی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ، بدفعلی کرنے والے درندے کئی بار لٹکائے جا چکے ہیں۔ البتہ اس سے ان سانحات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

پاکستان میں کتنی بار لٹکایا گیا ہے؟؟؟؟؟؟
اگر قانون کے دوہرے معیار نہ ہوں اور اسکی حد سب پر ایک جیسی پڑتی ہوتو پھر دیکھیں کہ کون اتنی آسانی سے جرم کی طرف مائل ہوتا ہے؟؟؟؟؟
 

جاسمن

لائبریرین
انتہائی درجے کی درندگی ہے۔ اس ظلم کی مذمت کے لیے الفاظ نہیں۔
اللہ مظلومین پہ رحم فرمائے اور ظالموں کو کیف کردار تک پہنچائے. آمین!
 

جاسم محمد

محفلین
طالبعلم سے زیادتی کیس میں گرفتار قاری شمس الدین کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1934149-shams-1577690051-717-640x480.jpg

ملزم کا ڈی این اے کرایا جائے گا، پراسیکیوٹر محسن مصطفیٰ فوٹو:ٹوئٹر

مانسہرہ: جوڈیشل مجسٹریٹ نے مدرسہ کے کم سن طالب علم سے زیادتی کے الزام میں گرفتار استاد قاری شمس الدین کو 5 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

مانسہرہ میں پولیس نے بچے سے زیادتی کیس کے ملزم کو سخت سیکورٹی میں مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا اور 14 دن کے ریمانڈ کی استدعا کی۔ عدالت نے 14 روز کی بجائے 5 دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ملزم کو پولیس کے حوالے کردیا۔

پراسیکیوٹر محسن مصطفیٰ نے کہا کہ ملزم کا ڈی این اے کرایا جائے گا اور اسے تین دن تک گرفتاری سے بچانے اور پناہ دینے والوں کو بھی شامل تفتیش کیاجاسکتا ہے۔

چند روز قبل مانسہرہ کے ایک مدرسے میں 10 سالہ بچے سے مبینہ طور پر بدفعلی اور تشدد کا واقعہ پیش آیا جس کے الزام میں استاد قاری شمس الدین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے مدرسہ کو سیل کردیا ہے۔ بچے پر اس قدر بہیمانہ تشدد کیا گیا کہ اس کی آنکھوں پر زخم پڑگئے اور سرخ ہوگئیں۔

مدرسے کی انتظامیہ کی جانب سے ملزم کی گرفتاری میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور جے یو آئی رہنما مفتی کفایت اللہ کا کہنا ہے کہ زیادتی قاری شمس الدین نے نہیں کی بلکہ کسی دوسرے طالب علم نے بچے پر تشدد کیا ہے۔
 
طالبعلم سے زیادتی کیس میں گرفتار قاری شمس الدین کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1934149-shams-1577690051-717-640x480.jpg

ملزم کا ڈی این اے کرایا جائے گا، پراسیکیوٹر محسن مصطفیٰ فوٹو:ٹوئٹر

مانسہرہ: جوڈیشل مجسٹریٹ نے مدرسہ کے کم سن طالب علم سے زیادتی کے الزام میں گرفتار استاد قاری شمس الدین کو 5 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

مانسہرہ میں پولیس نے بچے سے زیادتی کیس کے ملزم کو سخت سیکورٹی میں مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا اور 14 دن کے ریمانڈ کی استدعا کی۔ عدالت نے 14 روز کی بجائے 5 دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ملزم کو پولیس کے حوالے کردیا۔

پراسیکیوٹر محسن مصطفیٰ نے کہا کہ ملزم کا ڈی این اے کرایا جائے گا اور اسے تین دن تک گرفتاری سے بچانے اور پناہ دینے والوں کو بھی شامل تفتیش کیاجاسکتا ہے۔

چند روز قبل مانسہرہ کے ایک مدرسے میں 10 سالہ بچے سے مبینہ طور پر بدفعلی اور تشدد کا واقعہ پیش آیا جس کے الزام میں استاد قاری شمس الدین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے مدرسہ کو سیل کردیا ہے۔ بچے پر اس قدر بہیمانہ تشدد کیا گیا کہ اس کی آنکھوں پر زخم پڑگئے اور سرخ ہوگئیں۔

مدرسے کی انتظامیہ کی جانب سے ملزم کی گرفتاری میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور جے یو آئی رہنما مفتی کفایت اللہ کا کہنا ہے کہ زیادتی قاری شمس الدین نے نہیں کی بلکہ کسی دوسرے طالب علم نے بچے پر تشدد کیا ہے۔
ماشاء اللہ قاری صاحب کے چہرے پر نور برس رہا ہے۔
بھائی جاسم وہ شاکر القادری صاحب کا بھی کوئی کیس تھا اس کا کیا ہوا؟
 

جاسم محمد

محفلین
ماشاء اللہ قاری صاحب کے چہرے پر نور برس رہا ہے۔

مانسہرہ کے مدرسہ تعلیم القرآن میں دس سالہ بچے سے سو سے زائد مرتبہ زیادتی کا ملزم قاری شمس الدین تین دن تک مفرور رہا۔ پولیس اس کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارتی رہی لیکن اسے چھپانے والوں نے اسے پولیس کی پہنچ سے دور رکھا۔

بالآخر کل جے یو آئی کے مفتی کفایت اللہ اور مانسہرہ کے سابق رکن اسمبلی اور جماعت اسلامی کے رہنما ابرار تنولی نے پولیس سے مذاکرات کرنے کے بعد قاری شمس الدین کو مشروط طور پر پولیس کے حوالے کردیا۔

جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے پولیس کے سامنے مندرجہ ذیل شرائط رکھیں:

1۔ قاری شمس الدین پر کسی قسم کا تشدد یا سختی نہیں کی جائے گی
2۔ قاری شمس الدین کو ملاقاتیوں سے ملنے کی اجازت ہوگی
3۔ قاری شمس الدین کے خلاف کسی قسم کا چالان جمع کروانے سے قبل جمیعت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے مقامی رہنماؤں سے مشاورت کی جائے گی

شرائط کی خلاف ورزی کی صورت میں جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے دھمکی دی کہ وہ پورے علاقے کے مدارس کے بچوں کو تھانے کے سامنے دھرنا دینے کیلئے لے آئیں گے۔

اب آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لواطت جیسے سنگین ترین جرم کو مذہبی جماعتوں کی قیادت کی مکمل طور پر پشت پناہی حاصل ہے۔

جس طرح متی کفایت اللہ اور ابرار تنولی نے پولیس سے اپنی شرائط منوائیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مولویت ایک مافیا کا روپ دھار چکی ہے۔ جس طرح مافیا کے لوگ ایک دوسرے کو پروٹیکشن دیتے ہیں، اسی طرح بچوں سے زیادتی کرنے والے یہ جنسی درندے ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیں۔

پاکستان کے 99 فیصد مدارس میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے اور انہی ڈرا دھمکا کرخاموش رہنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔

زیادتی کا شکار یہ نسل یا تو نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتی ہے، یا پھر بڑے ہو کر خود بھی اس روش کو اپنا لیتے ہیں۔

برصغیر کے مدارس میں پتہ نہیں یہ علم کتنی صدیوں سے جاری ہے اور اگر اس پر قدغن نہ لگائی گئی تو آئیندہ پتہ نہیں کتنی اور صدیوں تک جاری رہے گا۔

خدارا اپنے بچوں کو ان جنسی درندوں سے بچائیں۔

چلتے چلتے ان لواطیوں سے ایک سوال جو یہ کہہ رہے تھے کہ قاری شمس کا تعلق مدرسے کی بجائے سکول سے تھا،

اگر ایسی بات تھی تو پھر کیا وہ مفتی کفایت اللہ کا داماد لگتا تھا جو اسے تین دن تک پناہ دیئے رکھی اور بعد میں مشروط حوالگی کی؟؟؟ بقلم خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
ماشاء اللہ قاری صاحب کے چہرے پر نور برس رہا ہے۔
پاکستان پینل کوڈ یعنی تعذیرات پاکستان میں ریپ کے حوالے سے مندرجہ ذیل دفعات موجود ہیں:
دفعہ 375 ، جس میں ریپ کو ڈیفائن کیا گیا ہے اور اس کے مطابق اگر کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک شرط کے تحت جنسی عمل کرے تو یہ ریپ کہلائے گا:
عورت کی مرضی کے خلاف
عورت کی رضامندی کے بغیر
عورت کی رضامندی کے ساتھ جب اسےموت کا خوف دلا کر رضامند کیا گیا ہو
شادی کا جھانسہ دے کر یا جھوٹا نکاح پڑھا کر
اگر لڑکی سولہ سال سے کم عمر ہے (چاہے رضامند بھی ہو، پھر بھی اس کے ساتھ جنسی عمل ریپ کہلائے گا)

دفعہ 376 میں سزا بیان کی گئی ہے جو کہ حالات کے مطابق موت یا کم سے کم دس سال قید اور زیادہ سے زیادہ 25 سال قید بمعہ جرمانہ ہے۔

اس سے اگلی شق 377 ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی مرد کسی بھی عورت، مرد یا جانور سے غیرفطری عمل کرتا ہے تو اسے کم سے کم دو سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال تک سزا دی جاسکتی ہے۔ اس شق میں کہیں بھی ریپ یا زیادتی کا لفظ استعمال نہیں ہوا، یعنی شق 377 کے مجرم کو زیادتی کے مجرم کے برابر سزا نہیں دی جاسکتی۔
دوسری طرف شق 376 میں واضح طور پر اس مرد مجرم کا ذکر ہے جو عورت کے ساتھ ریپ کرتا ہے۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کے آئین اور تعذیرات میں کس طرح لونڈے بازی کو تحفظ دیا گیا۔ یہ وہ 73 کا آئین ہے جس کا تذکرہ فضل الرحمان بار بار کرتا آیا ہے، جس کے تحفظ کا وہ دعوی کرتا ہے اور اسی 73 کے آئین کے تحت آپ کسی بھی مدرسے کے بچے کے ساتھ زیادتی کرنے والے مولوی کو ریپ کا مجرم قرار نہیں دے سکتے۔

قاری شمس الدین کو بھی انہی شرائط پر جے یو آئی کے مفتی کفایت اللہ نے پولیس کے حوالے کیا ہے کہ اس پر دفعہ 377 کے تحت چالان کاٹا جائے گا، نہ کہ 376۔

دفعہ 377 کے مطابق قاری شمس الدین کو غیرفطری عمل کا ملزم قرار دیا جائے گا جس کی سزا دو سال اور دس ہزار روپے جرمانہ ہے۔ یہ سزا جیل میں اچھے کنڈکٹ کے باعث کم بھی ہوسکتی ہے اور اس کی ضمانت بھی ممکن ہے۔

اول تو قاری شمس الدین کو جیل جانے ہی نہیں دیا جائے گا، لیکن اگر وہ چلا بھی گیا تو دو سال بعد اسے تذکیہ نفس کیلئے مدارس کی تنظیم عمرہ کی ادائیگی کیلئے اپنے خرچ پر سعودیہ بھیج دے گی۔ وہاں سے کھجوریں اور زیتون کھا کر قاری شمس دوبارہ توانائی بحال کرے گا اور واپس آکر ایک مرتبہ پھر وہی حرکات شروع کردے گا۔

لیکن اس مرتبہ اس کی کوشش ہوگی کہ پکڑا نہ جائے کیونکہ بزرگروں نے اسے عمرہ پر بھیجتے وقت یہی تاکید کی ہوگی!!! بقلم خود باباکوڈا
 

فاخر

محفلین
جس معاشرے میں اللہ توبہ معاف کریں۔ امرد پرستی، جنسی بے راہ روی اور مغربی کلچر نیز عشق و معاشقہ کو لازم سمجھا جاتا ہو اور جہاں اس سے قبل قصور میں سنسنی خیز واقعہ پیش آچکا ہو اور اس کا سدباب نہ کیا گیا ہو تو پھر ایسے واقعات پیش آئیں گے۔ خواہ مجرم کوئی بھی ہو۔ ملزم مدرسہ سے متعلق نہیں سرکاری اسکول کا ٹیچر ہے ، یہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مجرم سے ھمدردی جرم میں اضافے کا باعث ہے۔ معاشرہ کے ذمہ دار بالخصوص حکومت کو اس پر سخت سے سخت ایکشن لینے چاہیے۔
اور مدرسہ کو ایک شخص کی وجہ سے طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنائیں۔ جو لوگ اس فعل قبیح کی آڑ میں مدرسہ کیخلاف لایعنی باتیں کر رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ وہ فی نفسہ مدرسہ کے دشمن نہیں ۔ دین متین کے دشمن ہیں۔ راست طور پر دین متین کو گالیاں تو دے نہیں سکتے ، البتہ استعارتاً کہنا آسان بھی ہے اور ناقابل گرفت بھی۔ آپ مجرم کو تنقید کا نشانہ بنائیں لیکن راست طور پر تمام اداروں کو ہدف تنقید بنانا میرے خیال سے اچھی حرکت ہے۔ اس سے گریز کریں۔
 

عرفان سعید

محفلین
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کے آئین اور تعذیرات میں کس طرح لونڈے بازی کو تحفظ دیا گیا۔ یہ وہ 73 کا آئین ہے جس کا تذکرہ فضل الرحمان بار بار کرتا آیا ہے، جس کے تحفظ کا وہ دعوی کرتا ہے اور اسی 73 کے آئین کے تحت آپ کسی بھی مدرسے کے بچے کے ساتھ زیادتی کرنے والے مولوی کو ریپ کا مجرم قرار نہیں دے سکتے۔
انتہائی قبیح اور نفرت انگیز!
یہ جرم اپنے اندر شناعت کی نجانے کتنی تہیں رکھتا ہے۔
لواطت، بچے سے متعدد بار بدفعلی، بلیک میلنگ، جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد اور نجانے کیا کیا!
قرآن ایسے جرائم کو صاف صاف "حرابہ" سے تعبیر کرتا ہے اور صاف صاف یہ اعلان کرتا ہے کہ ایسے لوگوں کو بدترین طریقے سے قتل کر دیا جائے۔

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلاَفٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ.

بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔

الْمَآئِدَة، 5: 33

کیا ہی اچھا ہو کہ یہ کارِ خیر اسلام کے علمبرداروں، جیسے مفتی کفایت اللہ، کے ہاتھوں سر انجام پائے!
 

عرفان سعید

محفلین
جو لوگ اس فعل قبیح کی آڑ میں مدرسہ کیخلاف لایعنی باتیں کر رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ وہ فی نفسہ مدرسہ کے دشمن نہیں ۔ دین متین کے دشمن ہیں۔ راست طور پر دین متین کو گالیاں تو دے نہیں سکتے ، البتہ استعارتاً کہنا آسان بھی ہے اور ناقابل گرفت بھی۔
سخت غیر متفق!
مجرم جس ادارے سے متعلق ہوگا، اس پر لامحالہ سوال اٹھیں گے۔ اور اس صورت میں تو بار بار اٹھیں گے اگر پےدرپے ایسے جرائم ایک ادارے سے متعلق افراد سے سرزد ہوئے ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اور مدرسہ کو ایک شخص کی وجہ سے طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنائیں۔ جو لوگ اس فعل قبیح کی آڑ میں مدرسہ کیخلاف لایعنی باتیں کر رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ وہ فی نفسہ مدرسہ کے دشمن نہیں ۔
یہ واقعات صرف اسلامی مدرسوں تک محدود نہیں۔ پاپائے روم کے کیتھولک چرچ اور یہودی دقیانوسی فرقوں کے مدارس میں بھی بہت عام ہیں۔ اگر بدنامی سے بچنا ہے تو مولوی، پادری ، رابی ان قبیح افعال سے توبہ کیوں نہیں کر لیتے؟
Why has the Catholic Church taken so long to address child sexual abuse? | DW | 11.12.2019
The Ultra-Orthodox Community's Sex Abuse Crisis Has Finally Reached a Tipping Point
ہر مذہبی مدرسے کی ایک ہی کہانی ہے۔ جو کوئی بھی ان غلیظ افعال پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ سب مل کر اسی کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ اور بدنامی کے خوف سے اسے دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں اصلاح کا موقع جان بوجھ کر ضائع کر دیا جاتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا ہی اچھا ہو کہ یہ کارِ خیر اسلام کے علمبرداروں، جیسے مفتی کفایت اللہ، کے ہاتھوں سر انجام پائے!
مانسہرہ کے بچے پر کئے گئے ظلم کی خبریں آنے کے بعد اب تک کی ٹائم لائن میں علما کی جماعت کا جو ردعمل سامنے آیا، وہ کچھ یوں تھا:

1۔ یہ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں - سب جھوٹ ہے
2۔ اس واقعے میں کوئی قاری ملوث نہیں، یہ تو دو دوست آپس میں کھیلتے ہوئے لڑ پڑے تھے
3۔ اس واقعے میں مدرسے کا قاری نہیں بلکہ ایک سکول ٹیچر ملوث ہے
4۔ قاری شمس الدین پر الزام لگانے سے پہلے میڈیکل رپورٹ سے ثابت کرو کہ بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی
5۔ ثابت کیا جائے کہ بچے کے ساتھ سو مرتبہ بدفعلی کی گئی - کیا وہاں کیلکولیٹر رکھا تھا جس سے کاؤنٹ کیا گیا؟
6۔ پہلے یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ بچے کے ساتھ زبردستی بدفعلی کی گئی یا اس کی رضا اور منظوری سے
7۔ قاری شمس الدین نے اگر بدفعلی کی ہے تو اس کے چار گواہ لائے جائیں، ان کے بغیر سزا سنائی گئی تو طوفان کھڑا ہوجائے گا۔
8۔ ابتدائی تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ قاری شمس الدین نے زیادتی نہیں کی
9۔ قاری شمس الدین کا جرم بدفعلی ہے جو کہ بدکردار عمران خان سے کم ہی ہے۔ کم از کم بدکردار عورتوں سے زنا تو نہیں کیا
10۔ اگر کسی عالم پر بدفعلی کا الزام ثابت بھی ہوجائے تو پھر بھی اس کا چرچا نہیں کرنا چاہیئے۔ اس سے اسلام بدنام ہوتا ہے
11۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک قاری نے سو سے زائد مرتبہ ایک ہی بچے کے ساتھ بدفعلی کی ہو؟
12۔ بدفعلی کی سزا مولوی کو دینے سے پہلے ان تمام سکولوں اور کالجوں کے سربراہوں کو بھی دو جہاں ریپ ہوتے آئے ہیں۔

یہ ہے وہ مختلف بیانات جو جے یو آئی کی طرف سے گزشتہ چند روز کے دوران دیئے گئے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کن لوگوں کے ہاتھ میں آپ نے دین کی چابی دے رکھی ہے!!! بقلم خود باباکوڈا
 
Top