محترمہ مریم افتخار صاحبہ کے ساتھ ایک مصاحبہ!

قدیم اور جدید کا علم اس معاملے میں بھی نہیں تاہم قصہ گوئی اور افسانہ نگاری زیادہ پسند ہیں. گمان ہے کہ اول الذکر قدیم ہوگی اور مؤخر الذکر جدید. :)
جی درست فرمایا جدت و قدامت میں یہ دونوں اصناف اپنی مثال آپ ہیں
 
جن کی تحریر خوبصورت ہے وہ اسی خوبصورتی میں الجھے رہتے ہیں. جو ایک بڑا مقصد لے کر شروع کرتے ہیں وہ پتا نہیں جلدی میں ہوتے ہیں یا تحریر کی خوبصورتی کی نسبت ان کے لیے اس مقصد کی جانب بڑھنا اہم ہوتا ہے یا شاید ہماری عوام بھی عمومی طور پر ایسی ہوگئی ہے کہ اگر زیادہ ذہنوں تک ابلاغ چاہتے ہیں تو مصنفین کو خود سادہ لکھنا پڑتا ہے . بعض اشعار یا بعض اقتباسات خوبصورت اور بامقصد بھی ہوتے ہیں مگر جتنا کچھ لکھا جا رہا ہے اس کی نسبت اس کی پروپورشن بہت کم ہے. اس کے حل کے طور پر کوئی انقلابی شے آنی چاہئیے. :)
جی کلاسک کی نسبت آج کل مقصد پسندی جلدی بازی کا شکار ہورہی ہے لیکن پھر بھی ہماری خواتین اس مقصد کے تحت جو ناول تخلیق کر رہی ہیں وہ اتنی جلد باز نہیں۔
 
ایف ایس سی کے دوران ہمارے کالج کے بوائز سیکشن کے ایک استاد ایک اخبار کے ایڈیٹر تھے. وہ گرلز سیکشن میں نہیں آتے تھے. میں نے ایک اور استاد کے ہاتھ انہیں ایک کالم بھجوا کر زندگی میں ایک بار یہ کام بھی کر دیکھنے کا شوق پورا کیا. وہ شائع ہوا یا نہیں مجھے علم نہ ہوسکا تھا. ایک بار اتفاق سے وہ استاد مل گئے، جب انہیں پتا چلا کہ میں وہ ہوں تو میری سوچ، مفاہیم اور طرزِ بیان وغیرہ کی اتنی تعریف کی کہ شاید اتنی تعریف کسی نے کبھی نہیں کی. شاید وہ اس لیول پر کسی کی اس اپروچ کی توقع بالکل بھی نہیں کر رہے تھے. وہ کرتے ہی رہے بار بار کرتے ہی رہے! پھر دوسرے اساتذہ کے سامنے بھی الگ سے بے حد کی، اپنے بقیہ طلبہ کے سامنے الگ سے اور ایک بار ابو سے ملاقات ہوئی تو ان کے سامنے الگ سے اور شاید یہ بھی کہا کہ اسے لکھنے دیجیے گا وغیرہ وغیرہ..... انہوں نے اس کالم والے اخبار کی دو کاپیاں بھی دیں جس میں وہ شائع ہوا تھا، امی اور خالہ کو پڑھائیں مگر پھر وہ شاید خالہ کے گھر ہی ادھر ادھر ہوگئیں. سر نے بہت زیادہ اصرار بھی کیا تھا ان کے اخبار کے لیے مزید لکھنے اور لکھتے رہنے کا مگر میں بی ایس کے لیے شہر بدر ہوچکی تھی. ایک آدھ بار ان کے نہایت اصرار پر کچھ لکھ کر بھیجا تھا مگر مڑ کر نہ پوچھا کہ اس کا کیا ہوا اب تو چھے سال سے اوپر کا عرصہ ہوگیا. چھوٹے بھائی ان سے اردو کی ٹیوشن پڑھتے رہے پچھلے برس مگر میں نے ان سے کہا کہ انہیں مت بتانا کہ میرے بھائی ہو کیونکہ اس سے پہلے بھی جس کسی ہمارے اردو کے مشترکہ استاد کو پتا ہوتا رہا ہے اس سے بھائیوں کی (میرے بھائی ہو کر اردو کمزور ہونے پر) کلاس میں خصوصی بے عزتی ہوتی رہی ہے.
:)
واہ واہ ! تالیاں
ویسے اگر ان استادِ محترم کا نام بھی شامل ہوجائے تو یہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہوگا۔
 
ہمارے کالج کے طلبا میں سے بلال بھائی وہ واحد ہستی تھے جنہیں باقاعدہ شاعری آتی ہو اور کالج چھوڑنے سے پہلے میرا گول تھا کہ شاعری سیکھنی ہے کیونکہ اونگا بونگا میں بچپن سے لکھ لیتی تھی مگر سنا تھا کہ اسے شاعری نہیں کہتے اور کسے شاعری کہتے ہیں یہ بتانے والا مجھے کوئی نہ تھا. تاہم اب میں اپنے سبھی سٹوڈنٹس کو بتاتی ہوں تاکہ اگر انہیں انٹرسٹ ہو تو انہیں علم ہو کہ کس سمت جانا ہے. ہمارے کالج میں اردو ڈیپارٹمنٹ میں کئی اچھے شعرا استاد تھے اور میرے ذہن میں تھا کہ شاعری سیکھنے کا موقع شاید پھر کبھی نہ مل پائے. مگر وہ بھی بیسک نہیں سکھاتے تھے بلکہ بندہ جب بیسک کرنے جوگا ہو جائے تو مزید تنقید کر سکتے تھے. میں نے اس مقصد کے لیے بلال بھائی سے رابطہ کیا. انہوں نے نہایت تحمل سے مجھے بنیادی باتیں سکھائیں، مشقیں کروائیں اور جب میں نے پہلی تک بندی خود اپنی زمین میں کی تو مجھے محفل کا لنک بھیجا اور اسے محفل پر پوسٹ کرنے کا کہا تاکہ کلام کے وزن میں آنے کے سوا باقی تمام پہلوؤں پر بھی میری تربیت ہو سکے. وہ دن اور آج کا دن.......! :)
بلال کے لیے ہیٹس آف کہ انھوں نے ایک اردو دان کو حقیقی اردو فورم تک پہنچایا ۔
 
مجھے La Alma اچھی لگتی ہیں کیونکہ وہ جب بھی کرتی ہیں کسی نا کسی پہلو سے معیاری مراسلہ کرتی ہیں. خود سے بہت بہتر محسوس ہوتی ہیں. اسے جیلسی نہیں کہیں گے.

فرینکلی سپیکنگ لاریب مرزا سے ایک بار ہوئی جب پچھلے دنوں میں نے کسی مراسلے میں 'مَیں' کی جگہ 'ہم' کا صیغہ استعمال کیا تو اسے لاریب مرزا سٹائل قرار دیا گیا.
:)
حاضرین ہماری مہمان کی صاف گوئی پر تالیاں !
 
جس میں سبھی محفلین کے ٹیلنٹس عروج پر ہوں اور کوئی منفی انداز میں کسی کے اظہار خیال پر جان بوجھ کر طنز نہ کرے ایسا ہر سیکشن یا لڑی میری پسندیدہ ہوتی ہے. :)
میرے خیال میں تو آج کل سارے ٹیلنٹس مزاح میں ہی ڈوب ابھر رہے ہیں ۔ بالخصوص آپ کے میزبان جناب عدنان اکبر نقیبی بھائی کا تھریڈ "سادہ سا سوال ہے" میں ۔
 
تنہائی میں اچھا محسوس ہوتا ہے. ان لوگوں کے جھرمٹ میں رونا آتا ہے جو زبردستی مسلط ہوں اور پھر اپنے کام سےکام بھی نہ رکھیں. ہاں البتہ ایسے رونے کو اس وقت کنٹرول کر کے تنہائی کے لیے اٹھا رکھا جاتا ہے.
ویسے رونے پر بس اتنا غور کیا ہے کہ بڑا اچھا محسوس ہوتا ہے اس لیے کبھی کبھار آنکھو‍ں کو وضو کروا لیناچاہئیے. :)
یعنی ہم نے صحیح پکڑا :)
 
Ignorance is blessing.
ہوسکتا ہے زندگی کی مشکلات کم ہوتیں. ابو کو کہتے سنا ہے کہ تم ایسی کتابیں پڑھ پڑھ کر ہوئی ہو! :)
اور کتا بِ حیات پڑھنے کے بعد شاید جیسی اب ہیں ویسی بھی نہ رہیں۔ کیا کہتے ہیں عدنان بھائی :)
 
مکمل طور پر نہیں کہہ رہی مگر بہر حال یہ بھی ایک پہلو ہے. ہم جتنا جانتے ہیں امتحانات اور حساب بھی اسی حساب سے ہوتا ہے! میرے اردگرد کی خواتین گریڈز پر روتی اور کاسمیٹکس پر مرتی ہیں. میری خوشیاں، غم اور میری مشکلات، حساب اور سارا کچھ بہت مختلف اور ناقابلِ بیان ہے. :)
اور یہ شاید ادیبوں کا عمومی مسئلہ ہے :)
 
طلبا کے لیے کم از کم ایک دو گھنٹے کی پارٹم ٹائم جاب ضروری قرار دوں گی.
اردو، اسلامیات اور معاشرتی علوم کی آکسفورڈ کی کتب ملک میں داخل ہونے پر پابندی لگاؤں گی.
طلبا کے لیے نئی نئی سزائیں تجویز کروں گی جن میں جسمانی سزا کا دخل نہ ہو مگر پھر بھی وہ آئندہ وہ کام کرنے/نہ کرنے کے متعلق دس بار سوچیں.
ایویلوئیشن کے لیےموجودہ نظام کسی طرح بھی صحیح نہیں. کوئی نیا نظام متعارف کروانے کے لیے قابل ترین ذہنوں کی کمیٹی بناؤں گی اور جب ہر پہلو پر غور ہو جائے تو پھر اسے رائج کروں گی.
ایسے اقدام کروں گی کہ استاد محض ایک ملازم سا نہ رہے طلبا یا محکمے کے درمیان.
اساتذہ کو اپ ٹو ڈیٹ رکھنے کے لیے ہر ماہ ایک لیسن رکھواؤں گی اور جو اڈیپٹ نہ ہوں ان کے متعلق مناسب اقدام کروں گی.
وغیرہ وغیرہ وغیرہ.
:)
آپ کا دوسرا خیال ذرا مبہم ہے اگر اس کی کچھ اور وضاحت ہوجائے تو؟
 
بچوں کے لیے: کسی کی بات پر یونہی یقین نہ کریں، بچپن سے ہی سب کچھ محض ایک رائے سمجھ کر لیں اور خود متعلقہ معاملے کے متعلق اپنی رائے اور عمل قائم کریں کیونکہ یہ زندگی صرف آپ کی ہے. (ہوسکتا ہے کہ میں وہ واحد استاد ہوؤں جو اپنے سٹوڈنٹس سے کہتی ہو کہ میری بات پر بھی یقین نہ کرنا۔سٹوڈنٹس کو ہر ہر سبجیکٹ پڑھاتے ہوئے واقعات اپنے تجربات اور واقعات سناتی ہوں. وہ کہتے ہیں کہ آپ کو اتنے واقعات آتے کہاں سے ہیں ہر سبجیکٹ سے متعلق، مگر مجھے لگتا ہے کہ صرف واقعات ہی مجھ ایسے طلبا کو یاد رہ جاتے ہیں اور انہی کے توسط سے سبق دیر پا یاد رہتا ہے. اپنا سب کچھ ان پر لٹانے کے باوجود ان کو ہر بار کہتی ہوں کہ خود میری بات پر بھی مکمل یقین نہیں کرنا! یہ صرف آپ کو یہ بتانے کے لیے ہے کہ یوں بھی ہوتا ہے. اس کو سمجھیں اور گزر جائیں اور دنیا کے ہر معاملے کے متعلق اپنی رائے اور عمل خود قائم کریں.)

نوجوانوں کے لیے: اپنی انرجی کو ناصرف مثبت بلکہ بامقصد سمت میں صرف کریں. اس انرجی کا بھی حساب ہونا ہے اور پھر اس وقت امہ کو آپ کی ضرورت ہے!
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری
اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صُلح تو رعنا غزالِ تاتاری​


بوڑھوں کے لیے: آپ کے زندگی بھر کے تجربات سے بڑھ کر ہمارے لیے کیا قیمتی سرمایہ ہوسکتا ہے؟ جس کو جو ہو سکتا ہے بلا جھجک سکھائیے اور گئے دنوں پر پچھتائیے نہیں، آپ بڑھاپے میں جتنے پیارے ہیں آپ کو ابھی پتا ہی نہیں! :)
ما شا اللہ نیک خیالات ہیں۔
 
آپ کا مصاحبہ بہت خوب رہا .. دو بدو گفتگو میں جو مزہ ہے وہ تاخیر سے دیئے گئے جوابات میں نہیں. ایسا لگا کہ محترم خرم صاحب نے محفل میں رنگ جما دیا ہے .. آپ کا انٹرویو کافی اچھا ہے. آپ نے زندگی میں کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں .. مزید کے بارے میں آگاہی بھی دی ہے . ہمیں امید آپ اپنے لیے کامیاب ہوں گی. ان شاء اللہ

آپ یہ بتائیے زندگی میں آفاقیت کیسے تلاش کی جا سکتی ہے؟ آپ نے کیسی کی ہے؟ اگر نہیں کی تو کیسے کریں گی؟
نور سعدیہ بہنا آپ کا انٹرویو ہوچکا ہے کیا ؟
 
حاضرین و سامعین عدنان بھائی کے باقاعدہ اعلان کے بعد مصاحبہ تو ختم ہوچکا ہے یہ چند سوالات ایک دو اراکین کی جانب سے ان باکس میں موصول ہوئے تو یہاں جوابات کی غرض سے رکھ دئیے ۔
 
محترمہ مریم بہنا کا بھی بہت بہت شکریہ کہ انھوں نے اپنے قیمتی وقت کو ہمارے سوالوں کے لیے اٹھا رکھا۔ اگر پینل کی جانب سے کسی سوال سے دل شکنی ہوئی ہوتو معذرت۔
 
یہ نیک ارادہ ابھی تک کسی نہیں کیا کیونکہ میرے بارے میں محفلین بہت کچھ جانتے ہیں:)
حقیقت یہ ہے کہ میں یہاں کسی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا :) آپ کے نام سے آپ کے بارے میں بھی یہی جانتا ہوں کہ ہم ایک قبیلے سے ہیں :)
 
Top