ایچ اے خان
معطل
آج کل پاکستان میں انتخاب میں دھاندلی کا مسئلہ کافی گرم ہےاور پاکستان تحریک انصاف نے اس معاملہ پر لانگ مارچ کا اعلان بھی کررکھا ہے جسے وہ آزادی مارچ کہتے ہیں۔ پاکستان میں جو بھی انتخاب ہوئے ہیں ان میں سے اکثر شفاف تصور نہیں کیے جاتے مثلا وہ انتخا جس میں ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی ۔ یہ بی ڈی ممبر کے ذریعے ہوئے اور براہ راست عوامی انتخاب نہیں تھے۔ اسی طرح بھٹو کے دور میں انتخابات جس کی شفافیت پر بہت داغ تھے حتیٰ کہ انتخاب کے فورا بعد قومی اتحاد کو تحریک چلانے کا موقع ملا اور فوج نے مداخلت کرکے اقتدار پر قبضہ کیا۔ 85 کے انتخاب کو اس لیے شفاف نہیں کہا جاسکتا کہ یہ غیر جماعتی انتخاب تھے۔ بعد ازاں جو انتخاب ہوئے یعنی 88 یا 90 یا 93 یا 97 میں جو انتخاب ہوئے اس میں اکثر اسٹیبلشمنٹ نے اپنی مرضی کے لوگ حکومت میں لانے کی کوشش کی اور ان انتخابات کو بھی شفاف تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جو واحد انتخاب شفاف تصور کیے جاتے ہیں وہ 70 میں فوجی کی نگرانی ہوئے اور ان کے جو نتائج ائے وہ پاکستان کو توڑنے کے محرک ثابت ہوئے۔ اس لیے بعد کے تمام انتخابات میں فوجی انتظامیہ بہت حد تک مدخل رہی حتی کہ 2008 میں بھی۔ 2013 کے انتخاب میں بھی دھاندلی کثرت سے ہوئی۔مگر اس مرتبہ دھاندلی کا طریقہ بہت مختلف تھا ۔یہ دھاندلی اتنی شفاف رہی کہ اب عمران کو دھاندلی ثابت کرنے میں بھی مشکل ثابت ہورہی ہے۔ عمران جو الزام لگاتے ہیں اس کے کوئی ثبوت نہیں۔ بیوروکریٹس، فوجی انتظامیہ، اور عدلیہ کے افراد اس دھاندلی میں ملوث رہے اور شفاف طریقہ سے دھاندلی کی۔ ایک دھاندلی کا طریقہ جو استعمال ہوا وہ تارکین وطن کے ووٹ کا غلط استعمال ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریبا 58 لاکھ افراد تارکین وطن ہیں جن میں سے تقریبا 15 لاکھ سعودی اور 12 لاکھ یو اے ای میں ہیں۔ ان کی تقسیم درج ذیل ہے۔
سعودی عرب اور یو اے ای میں مقیم کی اکثریت مزدور طبقہ ہے اور زیادہ تر نیم خواندہ ہیں۔ گمان ہے کہ ان کے ووٹ غلط طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی اگر کسی امیدوار کو 20-25 ہزار ووٹ کی کمی پڑرہی تھی تو یہ ووٹ استعمال ہوسکتے ہیں۔ یعنی اگر ان 58 لاکھ تارکین افراد میں سے 60 فی صد کے ووٹ استعمال ہوئے ہوں اور یہ 25 ہزار کے تعداد میں پنجاب کے حلقوں میں استعمال ہوں تو تقریبا 139 سیٹس پر اسانی سے دھاندلی ہوسکتی ہے۔ اگرچہ یہ اندازہ ہے اور اسکا کوکوئی ثبوت نہیں مگر یہ بہت ممکن ہے۔ خود راقم کو ووٹ اسکی رہائش کراچی کے بجائے میاں چنوں میں درج تھا۔ یہ کام نادرا کے لیے بلکل اسان تھا کہ ان ووٹوں کو اپنی مرضی سے کہیں سے کہیں منتقل کرلے۔ اج کل حکومت پر دباو ہے کہ الیکٹوریل ریفارمز کی جاویں۔ امید ہے کہ ان ریفارمز میں تارکین وطن کو ووٹ دینے کا حق بھی دیا جاوے گا تاکہ وہ اپنی مرضی سے اپنے امیدوار چن سکیں اور ان کے ووٹ ناجائز استعمال نہ ہوسکیں۔
5,800,000
Approximately 3% of the Pakistani population
Regions with significant populations
Saudi Arabia1,500,000+
United Arab Emirates1,200,000+
United Kingdom1,100,100+
United States363,699
Canada155,310
Kuwait100,000
Oman85,000
Qatar83,000
Greece80,000
France5,250[1]
Malaysia56,000
Germany49,000
Spain47,000
Bahrain45,000
Norway39,134
Australia31,277
Libya30,000
China27,000
Denmark21,642
Netherlands
19,408
سعودی عرب اور یو اے ای میں مقیم کی اکثریت مزدور طبقہ ہے اور زیادہ تر نیم خواندہ ہیں۔ گمان ہے کہ ان کے ووٹ غلط طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی اگر کسی امیدوار کو 20-25 ہزار ووٹ کی کمی پڑرہی تھی تو یہ ووٹ استعمال ہوسکتے ہیں۔ یعنی اگر ان 58 لاکھ تارکین افراد میں سے 60 فی صد کے ووٹ استعمال ہوئے ہوں اور یہ 25 ہزار کے تعداد میں پنجاب کے حلقوں میں استعمال ہوں تو تقریبا 139 سیٹس پر اسانی سے دھاندلی ہوسکتی ہے۔ اگرچہ یہ اندازہ ہے اور اسکا کوکوئی ثبوت نہیں مگر یہ بہت ممکن ہے۔ خود راقم کو ووٹ اسکی رہائش کراچی کے بجائے میاں چنوں میں درج تھا۔ یہ کام نادرا کے لیے بلکل اسان تھا کہ ان ووٹوں کو اپنی مرضی سے کہیں سے کہیں منتقل کرلے۔ اج کل حکومت پر دباو ہے کہ الیکٹوریل ریفارمز کی جاویں۔ امید ہے کہ ان ریفارمز میں تارکین وطن کو ووٹ دینے کا حق بھی دیا جاوے گا تاکہ وہ اپنی مرضی سے اپنے امیدوار چن سکیں اور ان کے ووٹ ناجائز استعمال نہ ہوسکیں۔
5,800,000
Approximately 3% of the Pakistani population
Regions with significant populations




















19,408
آخری تدوین: