محبت دھوپ جیسی ہے

بحر و اوزان

  • 10

    Votes: 0 0.0%
  • 10

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    0

ابن رضا

لائبریرین
گزارش برائے اصلاح بحضور جناب
الف عین محمد یعقوب آسی سید عاطف علی مہدی نقوی حجاز مزمل شیخ بسمل و دیگر اربابَ سخن

محبت دھوپ جیسی ہے
کبھی سردی کے موسم میں تمازت خوب دیتی ہے
ٹھٹھرتے کپکپاتے تن کی یہ تسکین بنتی ہے
چمن میں کھل کھلاتی ہے گلوں کا دل لبھاتی ہے
کڑی گرمی کے موسم میں کلیجہ آزماتی ہے
جھلستے تپتپاتے گرم جھونکے بن کے آتی ہے
تو گلشن کی تراوٹ سے عداوت بھی نبھاتی ہے
محبت دھوپ جیسی ہے
جلا کر خاک کرتی ہے
محبت باد جیسی ہے
صبا کا روپ لے کریہ طروات دل کو دیتی ہے
کبھی بلبل کے نغموں کو یہ لے کر ساتھ چلتی ہے
بہارورں کی علامت اور سکونِ جان بنتی ہے
مگرا یسا بھی ہوتا ہے کبھی غصے میں آئے تو
عقابوں کےنشیمن بھی زمیں پر لاگراتی ہے
کبھی ساگر کی لہروں کی روانی تیز کرتی ہے
محبت باد جیسی ہے
سبھی کچھ روند سکتی ہے
محبت آب جیسی ہے
کبھی بارش کی بوندوں میں یہ پیہم برستی ہے
کبھی جھرنوں کی صورت یہ پہاڑوں سے نکلتی ہے
زمیں کی بلبلاتی خلق کو سیراب کرتی ہے
تلاطم خیز موجوں کا کبھی یہ بھیس بدلے تو
تناور پیڑ بوٹے سب خس و خاشا ک کرتی ہے
جڑوں سےتوڑ دیتی ہے بہا کر چھوڑ دیتی ہے
محبت آب جیسی ہے
سبھی کچھ لے گزرتی ہے
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
اچھی کوشش ہے ابن رضا صاحب۔۔کچھ تبصرہ مناسب لگتا ہے۔۔۔۔ ابر کا ب مفتوح باندھا گیا ہے جو درست نہیں ۔ یہ ب ساکن ہو نا چاہئے۔ گروندے کے جگہ دراصل گھروندے ہوگا۔ لیکن گھروندے کا جوڑ پرندوں کے ساتھ کچھ معنوی مطابقت نہیں رکھتا۔ دوسرے تراوٹ اور ٹپٹپانا کے الفاظ بھی کچھ بھاری لگ رہے ہیں اور عداوت کا نبھانا بھی عجیب لگ رہا ہے۔۔۔
چمن میں کھلکھلانا اور دل لبھانا ٹھیک ہے لیکن جھل ملانے کے ساتھ فلک لگا دیا جائے تو بہتر ہو۔ مثلا" چمن میں کھلکھلاتی ہے،فلک پر جھلملاتی ہے۔ٹپٹپانا کی جگہ برسنا یا ٹپکنا ہو۔مثلا" کبھی باد بہاراں بن کے یہ پیہم برستی ہے۔وغیرہ۔اسی طرح بھیس کے ساتھ بھر لے نہیں بدلے ہو تو بہتر ہو۔۔۔زمیں کی خلق کی ترکیب کچھ بندش میں کمزور لگ رہی ہے۔
لیکن بایں ہمہ مجموعی تاثرمجھے اچھا لگا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک اور ذاتی رائے یہ ہے کہ محبت کو وبال جان کہا جانا منفی سا تاثر دے رہا ہے۔اسے گرمی کی کیفیت کے آغاز میں تھوڑا سا بدل کر آزمائش کر دیا دجائے تو آنے والی بیاں کردہ سختیوں کا تمام تر تاثر مثبت ہو جائے ۔ مثلا" ۔۔کڑی گرمی کے موسم میں کلیجہ آزماتی ہے ۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
اچھی کوشش ہے ابن رضا صاحب۔۔کچھ تبصرہ مناسب لگتا ہے۔۔۔ ۔ ابر کا ب مفتوح باندھا گیا ہے جو درست نہیں ۔ یہ ب ساکن ہو نا چاہئے۔ گروندے کے جگہ دراصل گھروندے ہوگا۔ لیکن گھروندے کا جوڑ پرندوں کے ساتھ کچھ معنوی مطابقت نہیں رکھتا۔ دوسرے تراوٹ اور ٹپٹپانا کے الفاظ بھی کچھ بھاری لگ رہے ہیں اور عداوت کا نبھانا بھی عجیب لگ رہا ہے۔۔۔
چمن میں کھلکھلانا اور دل لبھانا ٹھیک ہے لیکن جھل ملانے کے ساتھ فلک لگا دیا جائے تو بہتر ہو۔ مثلا" چمن میں کھلکھلاتی ہے،فلک پر جھلملاتی ہے۔ٹپٹپانا کی جگہ برسنا یا ٹپکنا ہو۔مثلا" کبھی باد بہاراں بن کے یہ پیہم برستی ہے۔وغیرہ۔اسی طرح بھیس کے ساتھ بھر لے نہیں بدلے ہو تو بہتر ہو۔۔۔ زمیں کی خلق کی ترکیب کچھ بندش میں کمزور لگ رہی ہے۔
لیکن بایں ہمہ مجموعی تاثرمجھے اچھا لگا۔
محترم سید عاطف علی صاحب پزیرائی کے لیے بہت نوازش مزید آپکی تجاویز نہایت اچھی ہیں۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ ان اسقام کو دور کر سکوں۔ خوش رہیے۔ جذاک اللہ خیر
 

ابن رضا

لائبریرین
تدوین شدہ نظم حاضر ہے

محبت دھوپ جیسی ہے
کبھی سردی کے موسم میں تمازت خوب دیتی ہے
ٹھٹھرتے کپکپاتے تن کی یہ تسکین بنتی ہے
چمن میں کھل کھلاتی ہے گلوں کا دل لبھاتی ہے
کڑی گرمی کے موسم میں کلیجہ آزماتی ہے
جھلستے تپتپاتے گرم جھونکے بن کے آتی ہے
تو گلشن کی تراوٹ سے عداوت بھی نبھاتی ہے
محبت دھوپ جیسی ہے
جلا کر خاک کرتی ہے
محبت باد جیسی ہے
صبا کا روپ لے کریہ طروات دل کو دیتی ہے
کبھی بلبل کے نغموں کو یہ لے کر ساتھ چلتی ہے
بہارورں کی علامت اور سکونِ جان بنتی ہے
مگرا یسا بھی ہوتا ہے کبھی غصے میں آئے تو
پرندوں کےنشیمن کو زمیں پر لاگراتی ہے
کبھی ساگر کی لہروں کی روانی تیز کرتی ہے
محبت باد جیسی ہے
سبھی کچھ روند سکتی ہے
محبت آب جیسی ہے
کبھی بارش کی بوندوں میں مسلسل یہ برستی ہے
کبھی جھرنوں کی صورت یہ پہاڑوں سے نکلتی ہے
زمیں کی بلبلاتی خلق کو سیراب کرتی ہے
طلاطم خیز موجوں کا کبھی یہ بھیس بدلے تو
تناور پیڑ بوٹے سب خس و خاشا ک کرتی ہے
جڑو ں سےتوڑ دیتی ہے بہا کر چھوڑ دیتی ہے
محبت آب جیسی ہے
سبھی کچھ لے گزرتی ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اس سم کی مترنم نظم کے قوافی بھی درست ہو جائین تو اور اچھی لگے گی۔ مثلاً پہلے ہی بند میں دیتی، بنتی کے بعد چار مصرعے ’اتی‘ کے قافئے (لبھاتی، آتی، آزماتی) کے ہیں۔ ممکن ہے کہ اگر اس مشورے کے مطابق کچگ مصرعے بدلیں تو مزید اسقام جو نظر آ رہے ہیں، وہ دور ہو جائیں، یا نئے در آئیں۔ مثلاً ’پرندوں کے نشیمن‘ ۔۔ واحد نشیمن؟
تلاطم درست ہجے ہے، بہت سے لوگ طلاطم لکھتے ہیں جو غلط ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
اس سم کی مترنم نظم کے قوافی بھی درست ہو جائین تو اور اچھی لگے گی۔ مثلاً پہلے ہی بند میں دیتی، بنتی کے بعد چار مصرعے ’اتی‘ کے قافئے (لبھاتی، آتی، آزماتی) کے ہیں۔ ممکن ہے کہ اگر اس مشورے کے مطابق کچگ مصرعے بدلیں تو مزید اسقام جو نظر آ رہے ہیں، وہ دور ہو جائیں، یا نئے در آئیں۔ مثلاً ’پرندوں کے نشیمن‘ ۔۔ واحد نشیمن؟
تلاطم درست ہجے ہے، بہت سے لوگ طلاطم لکھتے ہیں جو غلط ہے
جی شکریہ استادِ محترم اس بار آپ نے مفصل تبصرے سے فیض یاب نہیں فرمایا تاکہ ہر مصرع میں اسقام کی نشاندہی ہو پاتی اور اصلاح کی کوشش کرتا
 
آخری تدوین:
Top