انسانی دُم کے امکانات پر غور۔

کرائم رپورٹر انور اپنی میز پر تنہا تھا۔ کلب کے ڈائننگ ہال کی فضاء زندگی سے بھر پور تھی۔ اس نے کافی طلب کی اور کسی خیال میں ڈوبا ہوا ہلکی ہلکی چسکیاں لیتا رہا۔ ان دنوں وہ اپنی شامیں عموماً ہائی سرکل نائٹ کلب ہی میں گزار رہا تھا۔ منیجر سے خاصی جان پہچان تھی اس لیے ادھار بھی چل جاتا تھا۔
کافی کی پیالی ختم کرتے ہی اس نے محسوس کیا جیسے اس کا سر چکرا رہا ہے۔ ساتھ ہی عجیب قسم کے اوٹ پٹانگ خیالات بھی اس کے ذہن میں چکرانے لگے۔ مثلاً اگر اس کے دُم بھی ہوتی تو پتلون پہننے میں کتنی دشواری پیش آتی۔ دُم سمیٹنی پڑتی۔ زیادہ بڑی ہوتی تو اسے بالکل اسی طرح لپیٹنا پڑتا جیسے عورتیں سر پر جوڑا باندھتی ہیں۔ دفعتاً اس نے قریب کھڑے ہوئے ویٹر سے کہا۔’’ کیوں دوست! بالکل ایسے ہی لگتا ہے ناجیسے پتلون کے نیچے کمر پر گٹھری باندھ رکھی ہو؟‘‘
ویٹر ہکا بکا رہ گہا اور پھر بوکھلا کر بولا۔’’ جی صاحب۔‘‘
’’نہیں سمجھے۔‘‘ انور نے احمقانہ انداز میں قہقہہ لگایا ۔’’ اچھا قریب آؤ۔‘‘
ویٹر قریب آگیا اور انور اس کی کمر تھپتھپا کر بولا۔’’یہاں گٹھری۔‘‘
’’ میں نہیں سمجھا جناب۔‘‘ ویٹر بھّرائی ہوئی آواز میں بولا۔
’’جہنم میں جاؤ۔ اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے۔ او گدھے میں دُم کی بات کررہا تھا۔‘‘
’’ اچھا اچھا صاحب۔‘‘ ویٹر جلدی سے بولا۔’’ میں ابھی حاضر ہوا۔‘‘
اس نے کھسک جانے ہی میں عافیت سمجھی۔ غالباً وہ یہی سمجھا تھا کہ زیادہ چڑھ گئی ہے لیکن میز پر کافی کی ٹرے کے علاوہ اور کیا تھا۔
ایسے ہی بے ڈھنگے خیالات انور کے ذہن میں کلبلاتے رہے اور وہ خواہ مخواہ ہنستا رہا۔ آس پاس کے لوگ چونک کر اُسے دیکھتے رہے۔ پھر تو ذہن پر قابو پانا ہی دشوار ہوگیا۔اب وہ بلند آواز میں بڑبڑا رہا تھا۔ واہ کیا بات ہوئی ۔ شاندار واہ۔۔۔ عورتوں کی دُم کے لیے بھی طرح طرح کے زیورات بننے لگتے۔ اخبارات میں اِس قسم کے اشتہارات نظر آتے۔۔ کبھی ہماری دُکان پر بھی تشریف لائیے۔ آپ کی دُم کی زینت کے سارے سامان مہیا ہیں۔ یا پھر دُم رنگوائیے۔۔۔ نیل پالش کے ساتھ ساتھ ٹیل پالش بھی۔ہاہا۔ فلاں لوشن استعمال کرکے دُم کی حفاظت کیجیے۔ دُموں کے ریشمی غلاف۔ شادی بیاہ کا مسئلہ ہوتا تو طرفین پوچھتے صاحبزادے کی دُم کتنی بڑی ہے۔۔ ہر ایک کے پیچھے تو نہیں ہلاتے پھرتے۔ ۔ کوئی محترمہ گئی ہیں لڑکی دیکھنے اپنے صاحبزادے کے لیے۔ لڑکی کی دُم دیکھتے ہی ناک بھوں چڑھائی۔ کچھ سوچتی رہیں اور بولیں۔ ہائے اللہ۔ بس اتنی سی دُم۔ ۔۔ ڈپٹی فلاں کی بیوی کہہ رہی تھی کہ لڑکی گز سوا گز کی دُم ہی رکھتی ہے۔ نہیں بھئی ہمیں ذرا دُمدار چاہیے۔ دوسری طرف کوئی ساس صاحبہ بہو کو للکار رہی ہیں کہ اری نیک بخت اٹھتے بیٹھتے ذرا دُم تو ہلا دیا کرو۔۔۔ دیکھو کتنا کوڑا کچرا پھیلا رہتا ہے آس پاس۔ ۔۔۔ والد صاحب فرزندِ حمید کی دُم تھامے کررہے ہیں پٹائی۔ کسی بے تکلف دوست نے راہ چلتے بے خبری میں پیچھے سے دُم پکڑلی۔۔۔ہاہا۔۔۔ہاہا۔۔۔ہاہا۔۔۔!‘‘
’’ہاں بھئی اور سنو۔۔۔کوئی فکر مند ماں پڑوسن سے کہہ رہی ہے۔ اے بہن دیکھو نا۔ جانے کیا روگ لگ گیا ہے میری بیٹی کو ۔۔ ماشاء اللہ کیسی گنجان دُم تھی۔ اے تم نے تو دیکھا ہی ہے۔ سارے بال جھڑے جارہے ہیں۔۔ کوئی تیل پھلیل ہی بتاؤ۔‘‘
از زہریلا آدمی۔ ابنِ صفی
 

الف عین

لائبریرین
ایک نظم ہم نے بھی کہی تھی کسی زمانے میں، بلکہ ایام جاہلیت میں، جس کا ٹیپ کا مصرع تھا
اگر انسان بھی دمدار ہوتا
 

Rashid Ashraf

محفلین
زہریلا آدمی رجواڑوں کی کہانی ہے، کہنے کو ناول بعد کا ہے لیکن فضا اس وقت کی ہے جب فریدی اور حمید بالترتیب انسپکٹر اور سارجنٹ ہوا کرتے تھے
میں نے اپنی کتاب کے پس ورق ماہنامہ شاعر کے مدیر افتخار امام صدیقی کا یہ فقرہ نقل کیا ہے: " ابن صفی کی نثر اردو کے قدیم و جدید اہم ترین نثر نگاروں سے کہیں زیادہ تخلیقی اور زرخیز ہے۔‘‘
 
Top