73 نادیدہ ہمدرد - صفحہ 12 تا 21

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
73 نادیدہ لاشیں صفحہ 12 تا 21

" کچھ نہیں۔۔۔ حقیقا سب کچھ فراڈ تھا۔!" فیاض بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"کس کا خط ہے۔۔۔؟"
فیاض نے خط عمران کی طرف بڑھا دیا اور خود کھلے ہوئے دروازے کی طرف مڑ کر باہر دیکھنے لگا۔ خط کا مضمون لکھنے والے کی شخصیت پر روشنی نہ پڑ سکی۔ عمران بلند آواز پڑھتا رہا۔
"غالبا تمہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کس قسم کے لوگوں سے سابقہ ہے۔ تم سب ہر وقت ہماری نظروں میں رہتے ہو۔ اس واقعے کو ذہن میں رکھو گے تو فائدے میں رہو گے۔ کیا تم مسڑ رحمان کی آواز پہچان سکے تھے۔ جس نے تم سے مدد طلب کی ہے اسے وہی کرنا پڑتے گا جو ہم چاہیں گے۔ ورنہ دوسری صورت میں اس کے خاندان والوں کی خیر نہیں۔ اب یہی دیکھو کہ ہمیں اس کی بھی اطلاع ہو گئی ہے کہ اس نے تم سے مدد طلب کی ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تم اس سلسلے میں کس سے مدد طلب کرو گے۔ لہٰذا اس وقت وہ بھی تمہارے ہی قریب موجود ہے۔ اسے ضرور بتاؤ کہ تم کن دشواریوں میں پڑ گئے ہو لیکن اسے یاد رکھنا کہ ہم ہر وقت جاگتے رہتے ہیں۔ کوئی بھی غلط قدم تمہارے اعزا کو موت کے منہ میں لے جائے گا۔ خدا حافظ۔!"
"خدا حافظ۔!" عمران بُرا سا منہ بنا کر بولا اور فیاض کو اسطرح گھورنے لگا جیسے وہ کئی عجوبہ ہو۔
فیاض آنکھیں بند کئے کھڑا تھا۔
"امے کیا کھڑے کھڑے مر گئے۔!"
"اوں۔۔۔!" فیاض نے آنکھیں کھول دیں اور خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔
"کیا قصہ ہے۔۔۔؟"
"میں بہت پریشان ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ لیکن یہ مشکل بھی خود بخود آسان ہو گئی۔!"
"کون لوگ ہیں۔۔۔؟"
"لیکن ۔۔۔ نہیں میں تمہیں کچھ نہیں بتا سکتا۔ واپس چلو۔۔۔!"
"کہاں چلوں۔۔۔؟"
"دیکھو۔۔۔ مجھے پریشان نہ کرو۔!" فیاض چیخ کر بولا۔ " میں کچھ نہیں جانتا خواہ مخواہ مجھے کوئی پریشان کر رہا ہے۔ وہ تمہارے باپ ہی کی آواز تھی۔ لیکن اس خط کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔!"

" اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ لیکن اب میں کہیں نہ جاؤں گا۔ مجھے اس وقت تک یہاں ٹھہرنا ہے جب تک کہ مالک مکان واپس نہیں آ جاتا۔!"
"کیوں پریشان کر رہے ہو مجھے۔!"
"میں تمہیں تو نہیں روک رہا۔۔۔ تم جا سکتے ہو۔"
"پھر تمہارے واپسی کیسے ہو گی۔۔۔؟"
"تم اس کی فکر نہ کرو۔۔۔ جاؤ۔۔۔!"
"تم رحمان صاحب سے اس کا تذکرہ نہیں کرو گے۔"
"یار تم اس طرح کہہ رہے ہو جیسے مجھے بہلا پھسلاکر یہاں لائے تھے۔"
"وعدہ کرو کہ تم ان سے ذکر نہیں کرو گے۔"
"وعدہ۔۔۔ اب تم یہاں سے دفع ہو جاؤ۔۔۔ بہت دنوں بعد مجھے ایسی تنہائی نصیب ہوئی ہے۔ واہ صاحب خانہ خوش ذوق آدمی معلوم ہوتا ہے۔ عمارت کے آس پاس کس قدر بینگن اگا رکھے ہیں۔"
"نہیں تم میرے ساتھ ہی چلو گے۔"
"صاحب خانہ سے ملے بغیر نہیں جا سکتا۔"
"ضروری نہیں کہ یہاں کوئی رہتا بھی ہو۔"
"میں نے ایسی علامات دیکھی ہیں جن کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ عمارت ویران نہیں رہتی۔"
"کیوں کیا تم قفل کھول کر اندر داخل ہوئے تھے۔"
"نہیں۔۔۔۔!"
"تو پھر جو کوئی بھی یہاں رہتا ہے کہیں آس پاس ہی موجود ہو گا۔"
"میں نے خواہ مخواہ یہ مصیبت اپنے سر لی۔" فیاض پیر پٹخ کر بولا۔
"سنو۔۔۔ فی الحال اپنے اعزہ کو بھول جاؤ۔ جن لوگوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے ان کا تعلق اس عمارت سے ہرگز نہ ہو گا۔"
"تم کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔؟"
"اس وقت ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے جس کو ہماری ضرورت ہے۔"
"میں نہیں سمجھا۔۔۔!"

اس مکان کا باسی۔۔۔!"
"احمق نہ بنو۔۔۔ ضروری نہیں۔۔۔!"
"یہ مکان غیر آباد نہیں ہے۔ کوئی یہاں دوپہر کا کھانا بھی کھائے گا۔" عمران اس کی بات کاٹ کر بولا۔ "باورچیخانے میں تازہ ترکاریاں موجود ہیں اور آٹا گندم رکھا ہے۔"
"اوہ۔۔۔!"
"اگر اس کا تعلق ان لوگوں سے ہو سکتا ہے تو پھر وہ اول درجے کے گدھے ہیں۔ محکمہ سراغ رسانی کا سپریٹنڈنٹ اتنا بااختیار تو ہو ہی سکتاہے کہ مالک مکان کو زبان کھولنے پر آمادہ کر سکے۔"
"تت۔۔۔ تم۔۔۔ ٹھیک کہتے ہو۔"
"تو پھر آؤ اسے تلاش کریں۔"
"دیکھو عمران مجھے اس معاملے میں نہ ڈالو۔ میرے کچھ اعزہ سخت خطرے میں ہیں۔"
"اسی شہر میں ہیں۔۔۔؟"
"نہیں۔۔۔!"
"چلو۔۔۔ صرف شہر کا نام ہی بتا دو۔۔۔!"
"نہیں۔۔۔ ناممکن۔۔۔ میں کئی دن سے پریشان ہوں۔ اگر اسے مناسب سمجھتا تو تم سے ضرور ذکر کرتا۔!"
"اچھا۔۔۔ تم اپنے اعزہ کے لیے دعا کرتے رہو۔ میں تو چلا۔" عمران نے کہا اور عمارت سے باہر آ گیا۔ چاروں طرف دور تک کھیت ہی کھیت تھے۔ لیکن ان کی روئیدگی ایسی نہیں تھی جس میں کسی کو چھپایا جا سکتا۔ وہ کھیتوں میں اترتا چلا گیا۔ دس منٹ تک تلاش جاری رہی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ تھک ہار کر پھر عمارت میں واپس آ گیا۔
جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا، فیاض نے مضطربانہ انداز میں کہا۔ "مم۔۔۔ میں نے اسے تلاش کر لیا ہے۔"
"کہاں ہے۔۔۔؟"
"تہہ خانے میں ۔۔۔ بیہوش ہے ۔۔۔ کچن میں تہہ خانے کی سیڑھیاں ہیں۔"
عمران فیاض کو وہیں چھوڑ کر باورچی خانے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ فیاض نے تہہ خانے کا

راستہ کھلا ہی چھوڑ دیا تھا۔ وہ زینے طے کر کے نیچے پہنچا۔
تھوڑی دیر تک تو کچھ سجھائی ہی نہیں دیا تھا۔ پھر جب آنکھیں اندھیرے کی عادی ہو گئیں تو وہ تہہ خانہ غلے کا گودام ثابت ہوا اور اس کی وسعت قریب قریب اتنی ہی تھی جتنی جگہ اوپر عمارت کی بنیادوں نے گھیر رکھی تھی۔
غلے کی بوریوں کے درمیان وہ چاروں خانے چت پڑا ہوا نظر آیا۔ بیہوش تھا اور یہ بیہوشی کسی نشہ آور چیز کی پیدا کردہ معلوم ہوتی تھی۔
عمران یہاں کا تفصیلی جائزہ لینا چاہتا تھا۔ اس لئے ایک بار پھر اُسے اوپر آنا پڑا۔
لالٹین باورچی خانے ہی میں مل گئی۔ اُسے روشن کر کے فیاض کی طرف توجہ دیئے بغیر پھر تہہ خانے میں اُتر گیا۔
بیہوش آدمی کے دائیں ہاتھ کے آستین بازو تک چڑھی ہوئی تھی اور قمیض بھی گریبان کے قریب پھٹی نظر آئی۔
اس کا مطلب تھا جبر۔۔۔ زبردستی اسے بیہوشی کا انجکشن دیا گیا تھا۔ آدمی تندرست اور چالیس کے لگ بھگ معلوم ہوتا تھا۔

اس کے قریب ہی ایک پرس بھی بڑا دکھائی دیا۔ عمران نے اسے اٹھایا اور لالٹین کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے لگا۔ دس دس کے گیارہ نوٹ اور کچھ کاغذات اس میں سے برآمد ہوئے۔ عمران نے اُسے اپنی جیب میں ڈالا اور پھر اوپر آ کر فیاض سے کہا کہ وہ بیہوش آدمی کو تہہ خانے سے نکالنے میں اس کی مدد کرئے۔
عمران محسوس کر رہا تھا کہ فیاض جلد از جلد وہاں سے بھاگ نکلنا چاہتا ہے۔
"کیا یہ بھی کوئی رشتہ دار ہے تمہارا۔۔۔؟" عمران نے بیہوش آدمی کی طرف اشارہ کیا۔
"فضول باتیں مت کرو۔۔۔!" فیاض کے لہجے میں اضطراب تھا۔ شاید اُسے عمران پر غصہ بھی آ رہا تھا لیکن اسے وہاں چھوڑ کر جا بھی نہیں سکتا تھا۔
تھوڑی دیر بعد بیہوش آدمی نے کراہ کر کروٹ لی اور آنکھیں کھول دیں اور ان دونوں پر نظر پڑتے ہی خوفزدہ نظر آنے لگا تھا۔
"ڈرو نہیں۔۔۔!" عمران نرم لہجے میں بولا۔ "اب تم محفوظ ہو۔"

"تت ۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔؟" وہ اٹھ بیٹھا۔
"وہ کون تھے جنہوں نے تمہیں اس حال کو پہنچایا۔"
"میں نہیں جانتا۔"
"ہم تو مسافر ہیں۔ پانی کی تلاش میں ادھر آ گئے تھے۔ مکان خالی دیکھ کر حیرت ہوئی اور صدر دروازہ بھی کھلا ہوا تھا۔ اسی تشویش میں باورچی خانے تک جا پہنچا اور وہاں سے تہہ خانے میں۔ ذرا دیکھو تمہاری کوئی چیز تو چوری نہیں ہوئی۔"
وہ حیرت سے انہیں دیکھتا رہا پھر یک بیک باورچی خانے کی طرف چل پڑا۔ عمران اس کے پیچھے تھا۔ فیاض اب بھی اپنی جگہ نے نہ ہلا۔تہہ خانے میں پہنچ کر اس آدمی نے غلے کی بوریوں کا جائزہ لیا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"یہاں سے تو کچھ بھی نہیں گیا۔"
"اوپر چل کر دیکھا۔۔۔!"
"اوپر کیا رکھا ہے۔"
"رقم۔۔۔ مطلب یہ کہ تمہارا پرس وغیرہ۔"
اس نے کمر ٹٹولی اور آہستہ سے بولا۔ "نہیں۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔"
"سیاہ رنگ کا کوئی پرس بھی ہے تمہارے پاس۔۔۔؟"
"نہیں۔۔۔ میں پرس نہیں رکھتا۔"
وہ اوپر آئے اور عمران نے اس سے اس وقوعے کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کر دی۔
حملہ آور اس کے لئے اجنبی تھے۔ اس نے ان کی تعداد تین بتائی۔ آئے تھے اور اچانک اُسے پکڑ لیا تھا۔ ایک نے منہ بند کر دیا اور دوسرے نے بازو میں کوئی دوا انجکٹ کر دی تھی۔
"ختم کرو۔۔۔ مجھے جلدی ہے۔" دفعتا فیاض نے غصیلے لہجے میں کہا۔
"ہاں ہاں ٹھیک ہے۔۔۔ چلو۔۔۔!" عمران سر ہلا کر بولا۔
"پھر وہ اسے متحیر چھوڑ کر عمارت سے نکل آئے تھے۔
"واپس۔۔۔!"
 

شمشاد

لائبریرین
"یار تم کسی عیالدار بیوہ کی طرح پریشان نظر آ رہے ہو۔ آخر قصہ کیا ہے۔ کیا تمہارے کسی

سالے پر کوئی بپتا پڑی ہے۔"
"اوہ۔۔۔ خاموش رہو۔۔۔!" فیاض دانت پیس کر بولا۔
اس نے پھر عمران کا بازو بہت مضبوطی سے پکڑ لیا تھا اور گاڑی کی طرف کھینچنے لگا تھا۔ گاڑی شہر کیطرف روانہ ہو گئی۔ عمران اب بالکل خاموش تھا۔ خود فیاض ہی تھوڑی دیر بعد بولا۔
"تم نے کسی سالے کا حوالہ کس بنا پر دیا تھا؟"
"تم جورو کے بھائی کے علاوہ اور کسی کے لئے اتنے پریشان نہیں ہو سکتے۔"
"مجھے بتاؤ کہ تمہیں کیونکر علم ہوا۔۔۔" فیاض نے سخت لہجے میں کہا۔
"چلو۔۔۔ ایک بات کی تو تصدیق ہوئی کہ وہ سالا ہی ہے۔"
"میں نہیں جانتا تھا کہ کبھی مجھے ایسے حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔"
"بہت خوب۔۔۔ ! محکمہ سراغ رسانی کا سپرنٹنڈنٹ بھی دھمکیوں سے مرعوب ہونے لگا۔"
"سنو۔۔۔ مجھے اپنی پرواہ نہیں ہے۔ تم اچھی طرح جانتے ہو۔"
"اور یہ بھی اچھی طرح جان گیا ہوں کہ دھمکیاں دینے والے بہت زیادہ باخبر لوگ ہیں۔ اس حد تک جانتے ہیں کہ تم کبھی کبھار مجھ سے بھی مدد لیتے ہو۔ اس طرح یہ دھمکی براہ راست میرے لئے ہے۔"
"تم خود ہی سمجھدار ہو۔" فیاض طویل سانس لے کر بولا۔
"اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ دھمکیاں دینے والے مجھے مسخرے لگتے ہیں۔"
"اس بات کو یہیں ختم کر دو۔۔۔!"
"بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ سوپر فیاض۔۔۔!"
"کیا مطلب۔۔۔؟"
"یہ اسی سالے کا معاملہ ہے جو سردار گڈھ میں سول سرجن لگا ہوا ہے۔"
"عمران۔۔۔!" فیاض کی آواز حلق ہی میں گھٹ کر رہ گئی۔
"اس نے تم سے کسی معاملے میں مدد طلب کی ہے۔ غالبا انہی لوگوں کے خلاف جن کی طرف سے ہمیں یہ دھمکی موصول ہوئی ہے۔"
"تم سردار گڈھ نہیں جاؤ گے۔۔۔؟"

"لیکن تم نے تو مجھے کچھ بھی نہیں بتایا۔"
"تمہیں کب اور کیسے معلوم ہوا۔۔۔؟"
"کچھ دیر پہلے اسی عمارت میں۔۔۔!"
"کیا وہ کوئی سراغ چھوڑ گئے تھے وہاں۔۔۔؟"
"دیدہ دانستہ نہیں۔۔۔ شاید غلطی سے۔"
"اوہ۔۔۔!"
"اور اب انہیں معلوم ہو جائے گا کہ کسی احمق کو خواہ مخواہ چھیڑ بیٹھنے کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔"
"میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بات کو یہیں ختم کر دو۔۔۔۔!"
"شاید میں تمہاری درخواست پر غور کر سکوں۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا کہ تم مجھے پوری بات بتا دو۔ آخر ڈاکٹر سجاد سے کیا قصور سرزد ہو گیا ہے۔"
"میں کچھ نہیں بتا سکتا۔"
"دوسری صورت میں خود ڈاکٹر سجاد کو بتانا پڑے گا اور شاید تم اسے بلکل ہی پسند نہ کرو۔"
فیاض نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے اسٹیرنگ کرتا رہا۔ اس کے بعد عمران نے بھی خاموشی اختیار کر لی تھی۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس نے فیاض کو اس مقام پر پہنا دیا ہے جہاں لوگ سب کچھ اگل دیتے ہیں۔"
****************

سردار گڈھ کے ہوٹل میزبان کے ریکرئیشن ہال میں بین الاقوامی شہرت رکھنے والا ایک شعبدہ گر اپنے کمالات کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ بین الاقوامی شہرت کے بارے میں ان پوسٹروں سے معلوم ہوا تھا جو ہوٹل کے باہر لگے ہوئے تھے۔ براہ راست یورپ اور امریکہ سے اطلاع نہیں آئی تھی کہ وہ وہاں بھی شہرت حاصل کر چکا ہے۔ حقیقت کا علم صرف ہوٹل کی انتظامیہ کو رہا ہو گا۔ ویسے صفدر یہی سوچ رہا تھا کہ ممکن ہے شعبدہ گری کا پیشہ اختیار کرنے سے پہلے وہ بھینسوں کا بیوپاری رہا ہو۔

پھر اس نے اپنے ذہن کو کریدنا شروع کیا۔ آخر بھیسوں کے بیوپاری ہی کا خیال کیوں آیا۔ کسی اور پیشے کی طرف ذہن کیوں نہیں گیا۔۔۔ اور پھر اس کی وجہ سمجھ میں آ گئی۔ شعبدہ گر کسی بھینسے

کی طرح وحشت زدہ اور بپھری ہوئی قوتوں کا مظہر معلوم ہوتا تھا۔ اس نے کئے ایسے کرتب دکھائے تھے جو شعبدے کی بجائے حقیقتا بے پناہ جسمانی قوت کا کرشمہ تھے۔
ویسے اُسے شعبدہ گر سے ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تو اس لڑکی میں دلچسپی لے رہا تھا جو شعبدہ گر کے ساتھ سٹیج پر کام کرتی تھی۔

اس کی آنکھیں بڑھی خوبصورت تھیں۔ انہیں غور سے دیکھنے پر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی جھیل کے کنارے شام ہو گئی ہو اور شفق کی لالی آہستہ آہستہ گہری ہوتی جا رہی ہو۔ لیکن وہ اس میں اس لئے دلچسپی نہیں لے رہا تھا کہ اس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ بات دراصل یہ تھی کہ وہ اس وقت بھی ڈیوٹی پر تھا اور اسی لڑکی کی تلاش میں سردار گڈھ آیا تھا۔ البتہ اسے اس کا علم نہیں تھا کہ وہ کسی شعبدہ گر کے لئے کام کر رہی ہے۔

اس کی تصویر اسے عمران سے ملی تھی اور ایکس ٹو کے حکم کے مطابق اسے سردار گڈھ میں تلاش کرنا تھا۔ آسان کام نہیں تھا۔ کیونکہ نہ تو اسے لڑکی کا نام معلوم تھا اور نہ پتا۔ اگر وہ اس شعبدہ گر کی اسسٹنٹ نہ ہوتی تو شاید ایک ماہ میں بھی اُسے تلاش نہ کر پاتا۔ میزبان ہوٹل کی تفریحات کے اشتہار ہی میں اس کی تصویر بھی نظر سے گزری تھی اور وہ شام گزارنے کے لئے سیدھا یہیں چلا آیا تھا۔

دوسری صبح وہ طویل فاصلے کی ٹیلی فون کال پر عمران کو اطلاع دے رہا تھا۔
"لڑکی کا نام " ریکھا چودھری " ہے۔ پروفیسر ایکس نامی شعبدہ گر کی اسسٹنٹ ہے۔ پروفیسر ایکس دیسی ہی آدمی ہے۔ اصل نام کا ابھی تک علم نہیں ہو سکا۔ میزبان ہوٹل میں مظاہرے کر رہا ہے۔ ریکھا چودھری اسی کے ساتھ ستائیس شہزاد روڈ پر مقیم ہے۔"
"ٹھیک ہے۔" دوسری طرف سے عمران کی آواز آئی۔ "تم وہیں مقیم رہ کر دونوں پر نظر رکھو۔"
"کب تک قیام کرنا پڑے گا۔"
"اس کا فیصلہ تمہارا باس کرے گا۔"
"لیکن اس کے حکم کے مطابق رپورٹ تو آپ ہی کو دینی ہے۔"
"غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرو۔" کہہ کر سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔ صفدر نے طویل سانس لی اور ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ اس نے یہ کال ٹیلی فون آفس سے کی تھی۔

ریکھا چودھری پر ہر وقت نظر رکھنا آسان کام نہیں تھا۔ کیونکہ وہ عموما اسی وقت بنگلے سے برآمد ہوتی تھی جب شو کے لئے میزبان ہوٹل جانا ہوتا تھا۔ لہٰذا شام سے پہلے وہ اسے دوبارہ نہ دیکھ سکا۔

آج کا مخصوص شعبدہ تو ایک حیرت انگیز چیلنج ثابت ہوا۔
شعبدہ گر اعلان کر رہا تھا۔ "خواتین و حضرات۔۔۔ میں اپنی اسسٹنٹ مس ریکھا چودھری کو مشین بنانے جا رہا ہوں۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ کس طرح گوشت پوست سے ایک فولادی پیکر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ کوئی جوان جو اس کے مقابل رقص کر سکے۔"
اس کے چیلنج پر بے شمار ہاتھ اٹھ گئے۔

"ٹھہریئے۔۔۔ پہلے پوری بات سن لیجئے۔" شعبدہ گر بولا۔ " وہ تیز قسم کی موسیقی پر رقص کرے گی۔ کم از کم دس نوجوان جنہیں اپنی توانائیوں پر اعتماد ہو خود کو تیار رکھیں۔ میرا دعویٰ ہے کہ پانچ منٹ سے زیادہ اس کے مقابل ٹھہرنا دشوار ہو گا۔"

"ہم دیکھیں گے۔۔۔ ہم دیکھیں گے۔" کئی غصیلی آوازیں تماشائیوں کی طرف سے آئیں۔
"اچھی بات ہے تو میں اس پر عمل کرنے جا رہا ہوں۔ ایک ایک نوجوان اس کے مقابل آئے گا، جیسے ہی ایک تھک کر معطل ہو گا دوسرا فورا ہی اس کی جگہ لے گا۔ لیکن ریکھا اسی رفتار سے رقص کرتی رہے گی۔"
پھر وہ ریکھا کو ایک کرسی پر بٹھا کر عمل تنویم کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بیدار ہو کر اتھی اور مائیکروفون سے رقص کی موسیقی منتشر ہونے لگی۔ ریکھا نے بالکل مشینی انداز میں رقص شروع کر دیا تھا۔ تماشاہیوں میں سے ایک نوجوان اٹھا اور اسٹیج پر آ کر ریکھا کے مقابل رقص کرنے لگا۔

موسیقی تیز تر ہوتی رہی۔ دونوں طوفانی انداز میں رقص کرتے رہے۔ پھر اچانک ریکھا کا ہم رقص لڑکھڑا کر گر پڑا۔ وہ بُری طرح ہانپ رہا تھا۔ اس کی جگہ لینے کے لئے دوسرا پہنچا۔

ریکھا بدستور رقص کرتی رہی۔ سچ مچ ایسا ہی لگتا تھا جیسے کوئی مشین چل پڑی ہو۔ جذبات و احساسات سے عاری چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہ چھ نوجوانوں کو شکست دے چکی تھی۔

پھر ایک بلند و بالا نوجوان اپنی جگہ سے اٹھا اور ریکھا کے مقابل آ گیا۔ غیر معمولی طور پر توانا اور

پھرتیلا معلوم ہوتا تھا۔ لوگوں نے تالیاں بجائیں کیونکہ دس منٹ گزر جانے کے باوجود بھی ریکھا ہی کی سی رفتار سے رقص کئے جا رہا تھا۔ جب کہ دوسرے پانچ یا چھ منٹ سے زیادہ نہیں سہار سکے تھے۔ پندرھویں منٹ پر وہ اچانک لڑکھڑایا اور اسٹیج پر ڈھیر ہو گیا۔
پھر اس کے بعد کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ اٹھا۔

ریکھا پہلے ہی کے انداز سے رقص کئے جا رہی تھی۔ ساتواں جوان جہاں گرا تھا وہیں پڑا رہا۔ اس سے پہلے جو گرے تھے وہ خود ہی اٹھ کر ہانپتے ہوئے اور شرمندگی کے آثار چہروں پر لئے اپنی جگہوں پر واپس چلے گئے تھے۔ لیکن یہ ساتواں جوان کچھ اس طرح گرا تھا کہ پھر اٹھ ہی نہ سکا۔ شعبدہ گر نے مجمعے پر نظر ڈالی اور پھر گرے ہوئے نوجوان کی طرف متوجہ ہو گیا۔

تیزی سے آگے بڑھ کر اس کے قریب پہنچا تھا اور جھک کر دیکھنے لگا تھا۔
پھر صفدر نے محسوس کیا جیسے وہ سراسیمگی میں مبتلا ہو گیا ہو۔ کبھی گرنے والے کی نبض ٹٹولتا اور کبھی سینے سے کان لگا کر دل کی دھڑکن سننے کی کوشش کرنے لگا۔

ریکھا دیوانہ وار رقص کئے جا رہی تھی اور تیز موسیقی کانوں کے پردے پھاڑے دے رہی تھی۔
اچانک سٹیج کا پردہ کھینچ دیا گیا۔
"کوئی گڑبڑ ۔۔۔" صفدر کرسی سے اٹھتا ہوا بڑبڑایا اور ٹھیک اسی وقت موسیقی بھی تھم گئی۔
پھر شاید اس نوجوان کے ساتھی اسٹیج کر طرف جھپٹے لیں انہیں پردے کے پیچھے جانے سے روک دیا گیا تھا۔ صفدر بھی ان میں ایک کے قریب جا کھڑا ہوا۔
"کیا قصہ ہے جناب۔۔۔؟" اس نے سوال کیا۔
"وہ کہتے ہیں ڈاکٹر کو طلب کیا گیا ہے۔۔۔!" جواب ملا۔
تھوڑی دیر بعد ایک آدمی پردہ ہٹا کر سامنے آیا۔ اس کے ہاتھ میں مائیک تھا۔
"خواتین و حضرات!" اس کی آواز ہال میں گونجی۔ "ہمیں بے حد افسوس ہے کہ کھیل جاری نہیں رہ سکتا۔ ساتویں مقابلہ کرنے والے کی حالت بہتر نہیں ہے۔ ڈاکٹر کو طلب کیا گیا ہے۔"
مجمعے پر سناٹا چھا گیا۔

پھر دس منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ ڈاکٹر نے پردے کے باہر آ کر نوجوان کی موت کا اعلان کر دیا۔ وجہ ہارٹ فیلیور بتائی تھی۔ لوگ اونچی آوازوں میں شعبدہ گر کا گالیاں دینے لگے۔
(ختم شد صفحہ 12 تا 21)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top