شمشاد
لائبریرین
73 نادیدہ لاشیں صفحہ 12 تا 21
" کچھ نہیں۔۔۔ حقیقا سب کچھ فراڈ تھا۔!" فیاض بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"کس کا خط ہے۔۔۔؟"
فیاض نے خط عمران کی طرف بڑھا دیا اور خود کھلے ہوئے دروازے کی طرف مڑ کر باہر دیکھنے لگا۔ خط کا مضمون لکھنے والے کی شخصیت پر روشنی نہ پڑ سکی۔ عمران بلند آواز پڑھتا رہا۔
"غالبا تمہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کس قسم کے لوگوں سے سابقہ ہے۔ تم سب ہر وقت ہماری نظروں میں رہتے ہو۔ اس واقعے کو ذہن میں رکھو گے تو فائدے میں رہو گے۔ کیا تم مسڑ رحمان کی آواز پہچان سکے تھے۔ جس نے تم سے مدد طلب کی ہے اسے وہی کرنا پڑتے گا جو ہم چاہیں گے۔ ورنہ دوسری صورت میں اس کے خاندان والوں کی خیر نہیں۔ اب یہی دیکھو کہ ہمیں اس کی بھی اطلاع ہو گئی ہے کہ اس نے تم سے مدد طلب کی ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تم اس سلسلے میں کس سے مدد طلب کرو گے۔ لہٰذا اس وقت وہ بھی تمہارے ہی قریب موجود ہے۔ اسے ضرور بتاؤ کہ تم کن دشواریوں میں پڑ گئے ہو لیکن اسے یاد رکھنا کہ ہم ہر وقت جاگتے رہتے ہیں۔ کوئی بھی غلط قدم تمہارے اعزا کو موت کے منہ میں لے جائے گا۔ خدا حافظ۔!"
"خدا حافظ۔!" عمران بُرا سا منہ بنا کر بولا اور فیاض کو اسطرح گھورنے لگا جیسے وہ کئی عجوبہ ہو۔
فیاض آنکھیں بند کئے کھڑا تھا۔
"امے کیا کھڑے کھڑے مر گئے۔!"
"اوں۔۔۔!" فیاض نے آنکھیں کھول دیں اور خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔
"کیا قصہ ہے۔۔۔؟"
"میں بہت پریشان ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ لیکن یہ مشکل بھی خود بخود آسان ہو گئی۔!"
"کون لوگ ہیں۔۔۔؟"
"لیکن ۔۔۔ نہیں میں تمہیں کچھ نہیں بتا سکتا۔ واپس چلو۔۔۔!"
"کہاں چلوں۔۔۔؟"
"دیکھو۔۔۔ مجھے پریشان نہ کرو۔!" فیاض چیخ کر بولا۔ " میں کچھ نہیں جانتا خواہ مخواہ مجھے کوئی پریشان کر رہا ہے۔ وہ تمہارے باپ ہی کی آواز تھی۔ لیکن اس خط کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔!"
" اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ لیکن اب میں کہیں نہ جاؤں گا۔ مجھے اس وقت تک یہاں ٹھہرنا ہے جب تک کہ مالک مکان واپس نہیں آ جاتا۔!"
"کیوں پریشان کر رہے ہو مجھے۔!"
"میں تمہیں تو نہیں روک رہا۔۔۔ تم جا سکتے ہو۔"
"پھر تمہارے واپسی کیسے ہو گی۔۔۔؟"
"تم اس کی فکر نہ کرو۔۔۔ جاؤ۔۔۔!"
"تم رحمان صاحب سے اس کا تذکرہ نہیں کرو گے۔"
"یار تم اس طرح کہہ رہے ہو جیسے مجھے بہلا پھسلاکر یہاں لائے تھے۔"
"وعدہ کرو کہ تم ان سے ذکر نہیں کرو گے۔"
"وعدہ۔۔۔ اب تم یہاں سے دفع ہو جاؤ۔۔۔ بہت دنوں بعد مجھے ایسی تنہائی نصیب ہوئی ہے۔ واہ صاحب خانہ خوش ذوق آدمی معلوم ہوتا ہے۔ عمارت کے آس پاس کس قدر بینگن اگا رکھے ہیں۔"
"نہیں تم میرے ساتھ ہی چلو گے۔"
"صاحب خانہ سے ملے بغیر نہیں جا سکتا۔"
"ضروری نہیں کہ یہاں کوئی رہتا بھی ہو۔"
"میں نے ایسی علامات دیکھی ہیں جن کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ عمارت ویران نہیں رہتی۔"
"کیوں کیا تم قفل کھول کر اندر داخل ہوئے تھے۔"
"نہیں۔۔۔۔!"
"تو پھر جو کوئی بھی یہاں رہتا ہے کہیں آس پاس ہی موجود ہو گا۔"
"میں نے خواہ مخواہ یہ مصیبت اپنے سر لی۔" فیاض پیر پٹخ کر بولا۔
"سنو۔۔۔ فی الحال اپنے اعزہ کو بھول جاؤ۔ جن لوگوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے ان کا تعلق اس عمارت سے ہرگز نہ ہو گا۔"
"تم کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔؟"
"اس وقت ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے جس کو ہماری ضرورت ہے۔"
"میں نہیں سمجھا۔۔۔!"
اس مکان کا باسی۔۔۔!"
"احمق نہ بنو۔۔۔ ضروری نہیں۔۔۔!"
"یہ مکان غیر آباد نہیں ہے۔ کوئی یہاں دوپہر کا کھانا بھی کھائے گا۔" عمران اس کی بات کاٹ کر بولا۔ "باورچیخانے میں تازہ ترکاریاں موجود ہیں اور آٹا گندم رکھا ہے۔"
"اوہ۔۔۔!"
"اگر اس کا تعلق ان لوگوں سے ہو سکتا ہے تو پھر وہ اول درجے کے گدھے ہیں۔ محکمہ سراغ رسانی کا سپریٹنڈنٹ اتنا بااختیار تو ہو ہی سکتاہے کہ مالک مکان کو زبان کھولنے پر آمادہ کر سکے۔"
"تت۔۔۔ تم۔۔۔ ٹھیک کہتے ہو۔"
"تو پھر آؤ اسے تلاش کریں۔"
"دیکھو عمران مجھے اس معاملے میں نہ ڈالو۔ میرے کچھ اعزہ سخت خطرے میں ہیں۔"
"اسی شہر میں ہیں۔۔۔؟"
"نہیں۔۔۔!"
"چلو۔۔۔ صرف شہر کا نام ہی بتا دو۔۔۔!"
"نہیں۔۔۔ ناممکن۔۔۔ میں کئی دن سے پریشان ہوں۔ اگر اسے مناسب سمجھتا تو تم سے ضرور ذکر کرتا۔!"
"اچھا۔۔۔ تم اپنے اعزہ کے لیے دعا کرتے رہو۔ میں تو چلا۔" عمران نے کہا اور عمارت سے باہر آ گیا۔ چاروں طرف دور تک کھیت ہی کھیت تھے۔ لیکن ان کی روئیدگی ایسی نہیں تھی جس میں کسی کو چھپایا جا سکتا۔ وہ کھیتوں میں اترتا چلا گیا۔ دس منٹ تک تلاش جاری رہی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ تھک ہار کر پھر عمارت میں واپس آ گیا۔
جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا، فیاض نے مضطربانہ انداز میں کہا۔ "مم۔۔۔ میں نے اسے تلاش کر لیا ہے۔"
"کہاں ہے۔۔۔؟"
"تہہ خانے میں ۔۔۔ بیہوش ہے ۔۔۔ کچن میں تہہ خانے کی سیڑھیاں ہیں۔"
عمران فیاض کو وہیں چھوڑ کر باورچی خانے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ فیاض نے تہہ خانے کا
راستہ کھلا ہی چھوڑ دیا تھا۔ وہ زینے طے کر کے نیچے پہنچا۔
تھوڑی دیر تک تو کچھ سجھائی ہی نہیں دیا تھا۔ پھر جب آنکھیں اندھیرے کی عادی ہو گئیں تو وہ تہہ خانہ غلے کا گودام ثابت ہوا اور اس کی وسعت قریب قریب اتنی ہی تھی جتنی جگہ اوپر عمارت کی بنیادوں نے گھیر رکھی تھی۔
غلے کی بوریوں کے درمیان وہ چاروں خانے چت پڑا ہوا نظر آیا۔ بیہوش تھا اور یہ بیہوشی کسی نشہ آور چیز کی پیدا کردہ معلوم ہوتی تھی۔
عمران یہاں کا تفصیلی جائزہ لینا چاہتا تھا۔ اس لئے ایک بار پھر اُسے اوپر آنا پڑا۔
لالٹین باورچی خانے ہی میں مل گئی۔ اُسے روشن کر کے فیاض کی طرف توجہ دیئے بغیر پھر تہہ خانے میں اُتر گیا۔
بیہوش آدمی کے دائیں ہاتھ کے آستین بازو تک چڑھی ہوئی تھی اور قمیض بھی گریبان کے قریب پھٹی نظر آئی۔
اس کا مطلب تھا جبر۔۔۔ زبردستی اسے بیہوشی کا انجکشن دیا گیا تھا۔ آدمی تندرست اور چالیس کے لگ بھگ معلوم ہوتا تھا۔
اس کے قریب ہی ایک پرس بھی بڑا دکھائی دیا۔ عمران نے اسے اٹھایا اور لالٹین کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے لگا۔ دس دس کے گیارہ نوٹ اور کچھ کاغذات اس میں سے برآمد ہوئے۔ عمران نے اُسے اپنی جیب میں ڈالا اور پھر اوپر آ کر فیاض سے کہا کہ وہ بیہوش آدمی کو تہہ خانے سے نکالنے میں اس کی مدد کرئے۔
عمران محسوس کر رہا تھا کہ فیاض جلد از جلد وہاں سے بھاگ نکلنا چاہتا ہے۔
"کیا یہ بھی کوئی رشتہ دار ہے تمہارا۔۔۔؟" عمران نے بیہوش آدمی کی طرف اشارہ کیا۔
"فضول باتیں مت کرو۔۔۔!" فیاض کے لہجے میں اضطراب تھا۔ شاید اُسے عمران پر غصہ بھی آ رہا تھا لیکن اسے وہاں چھوڑ کر جا بھی نہیں سکتا تھا۔
تھوڑی دیر بعد بیہوش آدمی نے کراہ کر کروٹ لی اور آنکھیں کھول دیں اور ان دونوں پر نظر پڑتے ہی خوفزدہ نظر آنے لگا تھا۔
"ڈرو نہیں۔۔۔!" عمران نرم لہجے میں بولا۔ "اب تم محفوظ ہو۔"
"تت ۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔؟" وہ اٹھ بیٹھا۔
"وہ کون تھے جنہوں نے تمہیں اس حال کو پہنچایا۔"
"میں نہیں جانتا۔"
"ہم تو مسافر ہیں۔ پانی کی تلاش میں ادھر آ گئے تھے۔ مکان خالی دیکھ کر حیرت ہوئی اور صدر دروازہ بھی کھلا ہوا تھا۔ اسی تشویش میں باورچی خانے تک جا پہنچا اور وہاں سے تہہ خانے میں۔ ذرا دیکھو تمہاری کوئی چیز تو چوری نہیں ہوئی۔"
وہ حیرت سے انہیں دیکھتا رہا پھر یک بیک باورچی خانے کی طرف چل پڑا۔ عمران اس کے پیچھے تھا۔ فیاض اب بھی اپنی جگہ نے نہ ہلا۔تہہ خانے میں پہنچ کر اس آدمی نے غلے کی بوریوں کا جائزہ لیا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"یہاں سے تو کچھ بھی نہیں گیا۔"
"اوپر چل کر دیکھا۔۔۔!"
"اوپر کیا رکھا ہے۔"
"رقم۔۔۔ مطلب یہ کہ تمہارا پرس وغیرہ۔"
اس نے کمر ٹٹولی اور آہستہ سے بولا۔ "نہیں۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔"
"سیاہ رنگ کا کوئی پرس بھی ہے تمہارے پاس۔۔۔؟"
"نہیں۔۔۔ میں پرس نہیں رکھتا۔"
وہ اوپر آئے اور عمران نے اس سے اس وقوعے کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کر دی۔
حملہ آور اس کے لئے اجنبی تھے۔ اس نے ان کی تعداد تین بتائی۔ آئے تھے اور اچانک اُسے پکڑ لیا تھا۔ ایک نے منہ بند کر دیا اور دوسرے نے بازو میں کوئی دوا انجکٹ کر دی تھی۔
"ختم کرو۔۔۔ مجھے جلدی ہے۔" دفعتا فیاض نے غصیلے لہجے میں کہا۔
"ہاں ہاں ٹھیک ہے۔۔۔ چلو۔۔۔!" عمران سر ہلا کر بولا۔
"پھر وہ اسے متحیر چھوڑ کر عمارت سے نکل آئے تھے۔
"واپس۔۔۔!"
" کچھ نہیں۔۔۔ حقیقا سب کچھ فراڈ تھا۔!" فیاض بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"کس کا خط ہے۔۔۔؟"
فیاض نے خط عمران کی طرف بڑھا دیا اور خود کھلے ہوئے دروازے کی طرف مڑ کر باہر دیکھنے لگا۔ خط کا مضمون لکھنے والے کی شخصیت پر روشنی نہ پڑ سکی۔ عمران بلند آواز پڑھتا رہا۔
"غالبا تمہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کس قسم کے لوگوں سے سابقہ ہے۔ تم سب ہر وقت ہماری نظروں میں رہتے ہو۔ اس واقعے کو ذہن میں رکھو گے تو فائدے میں رہو گے۔ کیا تم مسڑ رحمان کی آواز پہچان سکے تھے۔ جس نے تم سے مدد طلب کی ہے اسے وہی کرنا پڑتے گا جو ہم چاہیں گے۔ ورنہ دوسری صورت میں اس کے خاندان والوں کی خیر نہیں۔ اب یہی دیکھو کہ ہمیں اس کی بھی اطلاع ہو گئی ہے کہ اس نے تم سے مدد طلب کی ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تم اس سلسلے میں کس سے مدد طلب کرو گے۔ لہٰذا اس وقت وہ بھی تمہارے ہی قریب موجود ہے۔ اسے ضرور بتاؤ کہ تم کن دشواریوں میں پڑ گئے ہو لیکن اسے یاد رکھنا کہ ہم ہر وقت جاگتے رہتے ہیں۔ کوئی بھی غلط قدم تمہارے اعزا کو موت کے منہ میں لے جائے گا۔ خدا حافظ۔!"
"خدا حافظ۔!" عمران بُرا سا منہ بنا کر بولا اور فیاض کو اسطرح گھورنے لگا جیسے وہ کئی عجوبہ ہو۔
فیاض آنکھیں بند کئے کھڑا تھا۔
"امے کیا کھڑے کھڑے مر گئے۔!"
"اوں۔۔۔!" فیاض نے آنکھیں کھول دیں اور خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔
"کیا قصہ ہے۔۔۔؟"
"میں بہت پریشان ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ لیکن یہ مشکل بھی خود بخود آسان ہو گئی۔!"
"کون لوگ ہیں۔۔۔؟"
"لیکن ۔۔۔ نہیں میں تمہیں کچھ نہیں بتا سکتا۔ واپس چلو۔۔۔!"
"کہاں چلوں۔۔۔؟"
"دیکھو۔۔۔ مجھے پریشان نہ کرو۔!" فیاض چیخ کر بولا۔ " میں کچھ نہیں جانتا خواہ مخواہ مجھے کوئی پریشان کر رہا ہے۔ وہ تمہارے باپ ہی کی آواز تھی۔ لیکن اس خط کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔!"
" اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ لیکن اب میں کہیں نہ جاؤں گا۔ مجھے اس وقت تک یہاں ٹھہرنا ہے جب تک کہ مالک مکان واپس نہیں آ جاتا۔!"
"کیوں پریشان کر رہے ہو مجھے۔!"
"میں تمہیں تو نہیں روک رہا۔۔۔ تم جا سکتے ہو۔"
"پھر تمہارے واپسی کیسے ہو گی۔۔۔؟"
"تم اس کی فکر نہ کرو۔۔۔ جاؤ۔۔۔!"
"تم رحمان صاحب سے اس کا تذکرہ نہیں کرو گے۔"
"یار تم اس طرح کہہ رہے ہو جیسے مجھے بہلا پھسلاکر یہاں لائے تھے۔"
"وعدہ کرو کہ تم ان سے ذکر نہیں کرو گے۔"
"وعدہ۔۔۔ اب تم یہاں سے دفع ہو جاؤ۔۔۔ بہت دنوں بعد مجھے ایسی تنہائی نصیب ہوئی ہے۔ واہ صاحب خانہ خوش ذوق آدمی معلوم ہوتا ہے۔ عمارت کے آس پاس کس قدر بینگن اگا رکھے ہیں۔"
"نہیں تم میرے ساتھ ہی چلو گے۔"
"صاحب خانہ سے ملے بغیر نہیں جا سکتا۔"
"ضروری نہیں کہ یہاں کوئی رہتا بھی ہو۔"
"میں نے ایسی علامات دیکھی ہیں جن کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ عمارت ویران نہیں رہتی۔"
"کیوں کیا تم قفل کھول کر اندر داخل ہوئے تھے۔"
"نہیں۔۔۔۔!"
"تو پھر جو کوئی بھی یہاں رہتا ہے کہیں آس پاس ہی موجود ہو گا۔"
"میں نے خواہ مخواہ یہ مصیبت اپنے سر لی۔" فیاض پیر پٹخ کر بولا۔
"سنو۔۔۔ فی الحال اپنے اعزہ کو بھول جاؤ۔ جن لوگوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے ان کا تعلق اس عمارت سے ہرگز نہ ہو گا۔"
"تم کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔؟"
"اس وقت ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے جس کو ہماری ضرورت ہے۔"
"میں نہیں سمجھا۔۔۔!"
اس مکان کا باسی۔۔۔!"
"احمق نہ بنو۔۔۔ ضروری نہیں۔۔۔!"
"یہ مکان غیر آباد نہیں ہے۔ کوئی یہاں دوپہر کا کھانا بھی کھائے گا۔" عمران اس کی بات کاٹ کر بولا۔ "باورچیخانے میں تازہ ترکاریاں موجود ہیں اور آٹا گندم رکھا ہے۔"
"اوہ۔۔۔!"
"اگر اس کا تعلق ان لوگوں سے ہو سکتا ہے تو پھر وہ اول درجے کے گدھے ہیں۔ محکمہ سراغ رسانی کا سپریٹنڈنٹ اتنا بااختیار تو ہو ہی سکتاہے کہ مالک مکان کو زبان کھولنے پر آمادہ کر سکے۔"
"تت۔۔۔ تم۔۔۔ ٹھیک کہتے ہو۔"
"تو پھر آؤ اسے تلاش کریں۔"
"دیکھو عمران مجھے اس معاملے میں نہ ڈالو۔ میرے کچھ اعزہ سخت خطرے میں ہیں۔"
"اسی شہر میں ہیں۔۔۔؟"
"نہیں۔۔۔!"
"چلو۔۔۔ صرف شہر کا نام ہی بتا دو۔۔۔!"
"نہیں۔۔۔ ناممکن۔۔۔ میں کئی دن سے پریشان ہوں۔ اگر اسے مناسب سمجھتا تو تم سے ضرور ذکر کرتا۔!"
"اچھا۔۔۔ تم اپنے اعزہ کے لیے دعا کرتے رہو۔ میں تو چلا۔" عمران نے کہا اور عمارت سے باہر آ گیا۔ چاروں طرف دور تک کھیت ہی کھیت تھے۔ لیکن ان کی روئیدگی ایسی نہیں تھی جس میں کسی کو چھپایا جا سکتا۔ وہ کھیتوں میں اترتا چلا گیا۔ دس منٹ تک تلاش جاری رہی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ تھک ہار کر پھر عمارت میں واپس آ گیا۔
جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا، فیاض نے مضطربانہ انداز میں کہا۔ "مم۔۔۔ میں نے اسے تلاش کر لیا ہے۔"
"کہاں ہے۔۔۔؟"
"تہہ خانے میں ۔۔۔ بیہوش ہے ۔۔۔ کچن میں تہہ خانے کی سیڑھیاں ہیں۔"
عمران فیاض کو وہیں چھوڑ کر باورچی خانے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ فیاض نے تہہ خانے کا
راستہ کھلا ہی چھوڑ دیا تھا۔ وہ زینے طے کر کے نیچے پہنچا۔
تھوڑی دیر تک تو کچھ سجھائی ہی نہیں دیا تھا۔ پھر جب آنکھیں اندھیرے کی عادی ہو گئیں تو وہ تہہ خانہ غلے کا گودام ثابت ہوا اور اس کی وسعت قریب قریب اتنی ہی تھی جتنی جگہ اوپر عمارت کی بنیادوں نے گھیر رکھی تھی۔
غلے کی بوریوں کے درمیان وہ چاروں خانے چت پڑا ہوا نظر آیا۔ بیہوش تھا اور یہ بیہوشی کسی نشہ آور چیز کی پیدا کردہ معلوم ہوتی تھی۔
عمران یہاں کا تفصیلی جائزہ لینا چاہتا تھا۔ اس لئے ایک بار پھر اُسے اوپر آنا پڑا۔
لالٹین باورچی خانے ہی میں مل گئی۔ اُسے روشن کر کے فیاض کی طرف توجہ دیئے بغیر پھر تہہ خانے میں اُتر گیا۔
بیہوش آدمی کے دائیں ہاتھ کے آستین بازو تک چڑھی ہوئی تھی اور قمیض بھی گریبان کے قریب پھٹی نظر آئی۔
اس کا مطلب تھا جبر۔۔۔ زبردستی اسے بیہوشی کا انجکشن دیا گیا تھا۔ آدمی تندرست اور چالیس کے لگ بھگ معلوم ہوتا تھا۔
اس کے قریب ہی ایک پرس بھی بڑا دکھائی دیا۔ عمران نے اسے اٹھایا اور لالٹین کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے لگا۔ دس دس کے گیارہ نوٹ اور کچھ کاغذات اس میں سے برآمد ہوئے۔ عمران نے اُسے اپنی جیب میں ڈالا اور پھر اوپر آ کر فیاض سے کہا کہ وہ بیہوش آدمی کو تہہ خانے سے نکالنے میں اس کی مدد کرئے۔
عمران محسوس کر رہا تھا کہ فیاض جلد از جلد وہاں سے بھاگ نکلنا چاہتا ہے۔
"کیا یہ بھی کوئی رشتہ دار ہے تمہارا۔۔۔؟" عمران نے بیہوش آدمی کی طرف اشارہ کیا۔
"فضول باتیں مت کرو۔۔۔!" فیاض کے لہجے میں اضطراب تھا۔ شاید اُسے عمران پر غصہ بھی آ رہا تھا لیکن اسے وہاں چھوڑ کر جا بھی نہیں سکتا تھا۔
تھوڑی دیر بعد بیہوش آدمی نے کراہ کر کروٹ لی اور آنکھیں کھول دیں اور ان دونوں پر نظر پڑتے ہی خوفزدہ نظر آنے لگا تھا۔
"ڈرو نہیں۔۔۔!" عمران نرم لہجے میں بولا۔ "اب تم محفوظ ہو۔"
"تت ۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔؟" وہ اٹھ بیٹھا۔
"وہ کون تھے جنہوں نے تمہیں اس حال کو پہنچایا۔"
"میں نہیں جانتا۔"
"ہم تو مسافر ہیں۔ پانی کی تلاش میں ادھر آ گئے تھے۔ مکان خالی دیکھ کر حیرت ہوئی اور صدر دروازہ بھی کھلا ہوا تھا۔ اسی تشویش میں باورچی خانے تک جا پہنچا اور وہاں سے تہہ خانے میں۔ ذرا دیکھو تمہاری کوئی چیز تو چوری نہیں ہوئی۔"
وہ حیرت سے انہیں دیکھتا رہا پھر یک بیک باورچی خانے کی طرف چل پڑا۔ عمران اس کے پیچھے تھا۔ فیاض اب بھی اپنی جگہ نے نہ ہلا۔تہہ خانے میں پہنچ کر اس آدمی نے غلے کی بوریوں کا جائزہ لیا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"یہاں سے تو کچھ بھی نہیں گیا۔"
"اوپر چل کر دیکھا۔۔۔!"
"اوپر کیا رکھا ہے۔"
"رقم۔۔۔ مطلب یہ کہ تمہارا پرس وغیرہ۔"
اس نے کمر ٹٹولی اور آہستہ سے بولا۔ "نہیں۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔"
"سیاہ رنگ کا کوئی پرس بھی ہے تمہارے پاس۔۔۔؟"
"نہیں۔۔۔ میں پرس نہیں رکھتا۔"
وہ اوپر آئے اور عمران نے اس سے اس وقوعے کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کر دی۔
حملہ آور اس کے لئے اجنبی تھے۔ اس نے ان کی تعداد تین بتائی۔ آئے تھے اور اچانک اُسے پکڑ لیا تھا۔ ایک نے منہ بند کر دیا اور دوسرے نے بازو میں کوئی دوا انجکٹ کر دی تھی۔
"ختم کرو۔۔۔ مجھے جلدی ہے۔" دفعتا فیاض نے غصیلے لہجے میں کہا۔
"ہاں ہاں ٹھیک ہے۔۔۔ چلو۔۔۔!" عمران سر ہلا کر بولا۔
"پھر وہ اسے متحیر چھوڑ کر عمارت سے نکل آئے تھے۔
"واپس۔۔۔!"