16ماہ کی بچی کی بھوک سے موت، چھٹیاں منانے والی ماں کو عمر قید کی سزا

محمداحمد

لائبریرین
امریکا: 16ماہ کی بچی کی بھوک سے موت، چھٹیاں منانے والی ماں کو عمر قید کی سزا

امریکی عدالت نے اپنی 16ماہ کی بیٹی کو گھر میں اکیلے چھوڑ کر جانے والی ماں بیٹی کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنا دی جس میں انہیں پیرول کی سہولت بھی میسر نہیں ہو گی۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق 32سالہ کرسٹیل کینڈیلاریو جون 2023 میں اپنے کلیو لینڈ میں واقع گھر میں اپنی 16 ماہ کی بیٹی کو گھر پر موجود پالنے میں ہی چھوڑ کر چھٹیاں منانے کے لیے چلی گئی تھیں اور اس کے کھانے پینے کا بھی کوئی انتظام نہیں کیا تھا۔

جب وہ 10 دن بعد چھٹیاں منا کر واپس لوٹیں تو ان کی بیٹی کی سانس نہیں چل رہی تھی، انہوں نے فوراً ایمرجنسی سروس 911 پر کال کی جس نے بچی کو مردہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بچی کو پانی کی شدید کمی ہو گئی تھی۔

پوسٹ مارٹم میں پتا چلا کہ بچی کی موت شدید بھوک اور پانی کی کمی کی وجہ سے واقع ہوئی۔

کینڈیلاریو نے بچی کو گھر پر چھوڑنے کے تین دن بعد ایک تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی جس میں انہیں ساحل سمندر پر سفید شرٹ پہن کر سن گلاسز لگائے دیکھا جا سکتا ہے اور اس تصویر کے ساتھ انہوں نے تحریر کیا تھا کہ ہم جس وقت سے لطف اندوز ہوتے ہیں درحقیقت زندگی کے اصل لمحات وہی ہوتے ہیں۔

کاؤنٹی کی جج برینڈر شیہان نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی بیٹی کو بغیر کھانے کے تنہا چھوڑ کر دھوکے کی مرتکب ہوئی ہیں، جس طرح سے آپ نے جیلن کو اس جیل سے باہر نہیں آنے دیا، بالکل اسی طرح آپ بھی اپنی بقیہ پوری زندگی آزادی کے بغیر جیل میں قید رہیں گی، صرف فرق یہ ہو گا کہ اس جیل میں آپ کو کم از کم کھانے پینے کی وہ سہولت میسر ہو گی جس سے آپ نے اپنی بیٹی کو محروم رکھا۔

تناؤ اور ذہنی مسائل سے دوچار ملزمہ نے کہا کہ میں روز دعائیں کر کے معافی مانگتی ہوں۔

کینڈیلاریو نے کہا کہ مجھے اپنی بیٹی کو کھو دینے کی بہت زیادہ تکلیف ہے، جو کچھ ہوا اس کا مجھے بہت دکھ ہے، میں اپنے اس عمل کی وضاحت دینے کی کوشش نہیں کررہی لیکن کوئی نہیں جانتا کہ میں میں کس کیفیت سے گزر رہی تھی، خدا اور میری بیٹی نے مجھے معاف کردیا ہے۔

ڈان نیوز
---------------------
یہ خبر بڑی حیرت انگیز ہے۔ کوئی ماں ایسی کیسے ہو سکتی ہے، بلکہ کوئی بھی شخص ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ عام حالات میں ماں ہرگز ایسی نہیں ہو سکتی۔ آج کل ایک ٹرینڈ دیکھنے کو ملتا ہے جسے YOLO کہتے ہیں، یعنی You Only Live Once۔
یولو کا فلسفہ یہ کہتا ہے زندگی بس ایک بار ملتی ہے اور اس کو مکمل طور پر انجوائے کرنا چاہیے۔

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

یہ فلسفہ کبھی کبھی انسان کو سفاکی کی حد تک خود غرض بنا دیتا ہے اور انسان شیطان کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔ شیطان کا تو شروع دن سے یہی ایجنڈہ ہے کہ انسان کو ہر ممکن نقصان پہنچائے اور اس کی دنیا اور آخرت خراب کردے اور اس کے دل کا سکون لے اُڑے۔ اس معاملے میں بھی یہی فکر کارفرما نظر آتی ہے۔

اللہ ہمیں شیاطین کے شر سے محفوظ رکھے اور زندگی کا صحیح فہم عطا فرمائے۔ آمین
 

زیک

مسافر
یولو کو آپ نے بالکل غلط سمجھا ہے۔ اس کا اس سفاک خاتون کے جرم سے کوئی تعلق نہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
کینڈیلاریو نے بچی کو گھر پر چھوڑنے کے تین دن بعد ایک تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی جس میں انہیں ساحل سمندر پر سفید شرٹ پہن کر سن گلاسز لگائے دیکھا جا سکتا ہے اور اس تصویر کے ساتھ انہوں نے تحریر کیا تھا کہ ہم جس وقت سے لطف اندوز ہوتے ہیں درحقیقت زندگی کے اصل لمحات وہی ہوتے ہیں۔
اس اقتباس سے تو یہی سمجھ آتا ہے۔

آپ سمجھائیے کیا ہے یولو؟
 

علی وقار

محفلین
جب سے یہ خبر پڑھی ہے، حیرت میں مبتلا ہوں۔ بھلا کوئی ایسا سفاک اور بے رحم کیسے ہو سکتا ہے! شاید اس خاتون کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسائل ہوں گے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
توبہ۔۔۔
یولو ہو یا کوئی اور بے راہ روی دنیا مغرب سے ہی مستعار لے رہی ہے۔ مغرب میں یقیناً اچھے لوگ بھی ہوں گے لیکن ہر نئی معاشرتی برائی کی بنیاد بھی مغرب ہی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
یہ سفاکی کی بدترین مثال ہے۔ لیکن مغرب پہ ہی موقوف کیوں, ہمارے ہاں بھی ملتی جلتی مثالیں موجود ہیں۔
چھے بچوں کی ماں جب آشنا کے ساتھ فرار ہوتی ہے تو کس کے آ سرے پہ چھے بچے چھوڑ کے جاتی ہے!
ابھی کچھ عرصہ پہلے اردو محفل پہ کہیں میں نے بتایا تھا کہ تین لڑکوں کے والدین میں علیحدگی ہوئی اور دونوں نے دوسری شادی کر لی۔ وہ لڑکے تقریباً دس، آٹھ بارہ کے درمیان ہوں گے۔ نہ باپ رکھنے پہ راضی نہ مان۔ عدالت کے باہر کسمپرسی میں مبتلا کھڑے بچے۔
بغیر کسی مجبوری کے جب ماں اپنے بخار /بیماری میں مبتلا بچے کو روتا چھوڑ کے نوکر کے حوالے کر کے باہر جاتی ہے۔
تو مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں۔
لیکن بہرحال یہ بدترین مثال ہے اور شاید وہ خاتون کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
جب سے یہ خبر پڑھی ہے، حیرت میں مبتلا ہوں۔ بھلا کوئی ایسا سفاک اور بے رحم کیسے ہو سکتا ہے! شاید اس خاتون کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسائل ہوں گے۔
جی خبر میں واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ ذہنی تناؤ اور دباؤ کا شکار تھی۔ ورنہ کوئی بھی ماں ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ ویسٹ میں تو جانوروں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اپنی اولاد کی ذمہ داری صحیح طرح سے نہ اٹھائے تو ریاست اس کا ذمہ لے لیتی ہے۔ یہ ایک ذہنی مریض عورت کا انفرادی عمل کہا جا سکتا ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنا بھی اس معاشرے کا حسن ہے۔ اس عورت کو قرا ر واقعی سزا بھی مل گئی۔ اگر یہ ہمارا معاشرہ ہوتا تو یہ دیکھا جاتا کہ یہ ذہنی مریضہ کسی طاقتور طبقے سے تعلق تو نہیں رکھتی۔ اگر ایسا ہوتا تو میڈیا بھی یہ خبر چھپا دیتا۔ اس کی ضمانت قبل از گرفتاری ہو جاتی اور کوئی چھوٹا موٹا ملازم یہ سب اپنے سر لے لیتا۔ کیس سالوں چلتا اور بالآخر ناکافی ثبوتوں کی بنا پر خارج ہو جاتا۔
کچھ عرصے پہلے ایک ویڈیو دیکھی تھی کہ ایک جج کی بیوی نے ملازمہ کو مار مار کر قتل کر دیا تھا۔ اس کو بھی ضمانت مل گئی اور آج تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ہر معاشرے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ کسی فرد واحد کے عمل کو اس معاشرے کی روایت قرار دینا ٹھیک نہیں۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
جب سے یہ خبر پڑھی ہے، حیرت میں مبتلا ہوں۔ بھلا کوئی ایسا سفاک اور بے رحم کیسے ہو سکتا ہے! شاید اس خاتون کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسائل ہوں گے۔
جی۔ انتہائی حیرتناک بات ہے، عام انسان ایسا نہیں ہو سکتا۔ یقیناَ اس کے ساتھ نفسیاتی مسائل ہوں گے۔ تاہم کوئی شخص ایک دم سے اس قدر سفاک نہیں بن جاتا بلکہ وہ رفتہ رفتہ بے حسی کی منزلیں عبور کرتا ہے۔

اللہ اس قدر بے حسی سے اپنی پناہ میں رکھے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
توبہ۔۔۔
یولو ہو یا کوئی اور بے راہ روی دنیا مغرب سے ہی مستعار لے رہی ہے۔ مغرب میں یقیناً اچھے لوگ بھی ہوں گے لیکن ہر نئی معاشرتی برائی کی بنیاد بھی مغرب ہی ہے۔

بری روایت چاہے کہیں بھی جنم لے بری ہی کہلائے گی۔ہمیں چاہیے کہ ہر چیز کو اس کی میرٹ پر پرکھنے کی کوشش کریں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بری روایت چاہے کہیں بھی جنم لے بری ہی کہلائے گی۔ہمیں چاہیے کہ ہر چیز کو اس کی میرٹ پر پرکھنے کی کوشش کریں۔
یقیناً میرٹ پر ہی پرکھنا لازم ہے لیکن آج کی اکثر برائیاں مغرب سے امپورٹ کی ہوئی ہی ملیں گی۔
 
Top