بہت افسوس کے ساتھ (ویلنٹائن ڈے)

مہوش علی

لائبریرین
دنیا میں ویلنٹائن ڈے بالمقابل پاکستان میں ویلنٹائن ڈے [جرمن ٹی وی کا پروگرام]


ابھی ٹی وی پر ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ایک پروگرام نشر ہو رہا تھا جس میں پوری دنیا دکھائی جا رہی تھی کہ وہاں ویلنٹائن ڈے کیسے منایا جا رہا ہے۔ سب سے رنگا رنگ تقریبیں شاید چائنہ میں تھیں۔ بہرحال مختلف تہذیبیں دیکھ کر اچھا لگ رہا تھا۔
مگر آخر میں وہ پاکستان پر لے گئے کہ آئیں دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کیسے منایا جا رہا ہے۔ اور پھر انہوں نے دکھایا کہ کچھ مسلح ٹولے شہروں میں پھر رہے ہیں اور وہ دکانیں ٹوڑ پھوڑ رہے ہیں جہاں ویلنٹائن ڈے وش کارڈز وغیرہ موجود ہیں۔

پوری دنیا میں ویلنٹائن کی خوشیوں بھری تقریبات دیکھنے کے بعد پاکستان کا یہ منظر بہت بھیانک تھا۔ ہم تو پاکستانی کلچر سے کچھ واقف ہیں تو شاید کچھ سمجھ جائیں، مگر بے چارے باقی یورپینز کا یہ دیکھ کر کیا حال ہوتا ہو گا۔


کیا یہ مسلح جتھوں کی صورت میں توڑ پھوڑ صحیح ہے؟


صاف الفاظ میں، آپکے ذاتی طور پر ویلنٹائن ڈے کو صحیح سمجھیں یا غلط، مگر اسلام کے نام پر لوگوں کو اتنا برین واش کر دیا گیا ہے کہ وہ اس مسلح دھشت گردی کو بھی جائز سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔

اگر آپ کو ویلنٹائن ڈے اسلام کے مطابق نہیں لگتا تو آپ تبلیغ کے ذریعے اس سے روکیں، مگر یہ کیا ہے کہ دوسروں پر اپنے نظریات ٹھونسنے کے لیے بے دریغ طاقت کا استعمال کیا جائے۔

اللہ تعالی ان لوگوں کو کچھ عقل دے۔ امین۔

////////////////////

ویلنٹائن ڈے یا بسنت کا بذات خود کسی مذھب سے تعلق نہیں رہ گیا ہے اور نہ ہی پاکستان میں بسنت منانے سے ھندو مذھب کی تبلیغ ہوتی ہے اور نہ ہی ویلنٹائن ڈے سے عیسائیت پھیلائی جا رہی ہے۔

یہاں یورپ میں سارے عیسائی ہیں ، مگر شاید ایک دو فیصد لوگ ہی ہوں جنہیں اس دن کے تاریخی پس منظر کا علم ہو، مگر ان مسلمان طبقات کا سارا زور اس بات پر کہ اس سے عیسائیت کی تبلیغ ہو رہی ہے۔

جبتک ان مسلم طبقات نے سارا زور اس پر صرف نہیں کیا تھا، اُس وقت تک پاکستان میں شاید ہی کوئی بسنت مناتے ہوئے ھندو مت کا سوچتا تھا، یا پھر ویلنٹائن ڈے کو عیسائیت سے جوڑتا ہو۔ بلکہ ان دونوں چیزوں کو مذھب کا لبادہ صرف ان مسلم طبقات نے پہنایا ہے۔
 
نظریاتی کشمکش کو جنگ سے تبدیل کرنا وحشیوں اور جانوروں کا وطیرہ رہا ہے۔ اس لئے کہ وہ بول نہیں‌سکتے۔ انسان نظریات کی جنگ الفاظ سے لڑتے ہیں۔ نظریاتی فرق کا کیا یہ مطلب ہے کہ جینے کا حق چھین لیا جائے؟ جان ، مال اور عزت و سکون چھین لیا جائے؟
 
فوٹو ٹیک 81 صاحب،
اب تک تو میں اس کو کوئی ہلکا پھلکا مذاق سمجھ کر شامل ہوتا رہا اور چھیڑخانیاں کرتا رہے - لیکن آپ کا آرٹیکل پڑھ کر اندازہ ہوا کہ صاحب کہ نظریات شادی کے بارے میں‌مجروح ہیں۔
لگتا یہ ہے کہ آپ کو لکھنے کا شوق ہے لیکن بنا ریسرچ کئے اور بنا سوچے سمجھے لکھتے ہیں، صرف کہی اور سنی ہوئی لکھتے ہیں ۔ مخالفت اور نفرت کی سیاست۔

آپ کی اسلام کے ایک اور گرانقدر نبی حضرت عیسی علیہ السلام کے پیرو کاروں سے دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے، لیک اندازاہ ہوتا ہے کہ آپ کی معلومات سنی سنائی پر مبنی ہیں۔ سینٹ ویلنٹائین عام عیسائی مبلغوں اور پادریوں کے شادی کی مخالفت بارے میں عمومی نظریات سے مخالفت کے نظریات کا مخالف تھا۔ وہ تاحیات کنوارہ رہنے کو غلط قرار دیتا تھا۔ جس دور میں عیسائی مبلغ اور پادری لوگوں کی شادیاں‌نہیں کرواتے تھے۔ یہ ان کے عیسائی نکاح پڑھایا کرتا تھا۔

کیا اگر ایک عیسائی بھی درست بات کرے تو ہم کو اس کی صرف اس لئے مخالفت کرنی چاہئیے کہ وہ عیسائی ہے؟
کیا آپ عیسائی مبلغ یا پادری ہیں؟
کیا آپ تاحیاات کنوارہ رہنے کے حامی ہیں؟
کیا آپ عیسائی مبلغین و پادریوں کی طرح شادی کے مخالف ہیں ؟
کیا آپ شادی کے خلاف ہیں؟
آپ نے لکھا ہے کہ " یہ بیماری اب پاکستان میں بھی پھیل گئی ہے" ۔ آپ سینٹ ویلنٹائین کے شادی کے حامی ہونے کے نظریے کو بیماری کیوں‌سمجھتے ہیں؟ آپ کے آرٹیکل میں اس بات پر بالکل روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔ اس پر روشنی ڈالئے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میری تو سانس ہی رُک گئی جب سب ممالک کا دکھاتے دکھاتے یکدم سے پاکستان میں ہونے والی توڑ پھوڑ دکھانی شروع کر دی۔ ابھی مجھ سے باہر یہ سوال بھی کیا گیا ہے اور مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اسکا کیسے جواب دوں کہ ملکِ خداداد پاکستان کی عزت مجروح نہ ہو۔
 
ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کہتے ہیں یا لکھتے ہیں وہ عام فہم نہیں ہوتا ہے، ہماری بحث اصلاح معاشرہ سے ہٹ کر اپنی علمی قابلیت جھاڑنے کی طرف زیادہ ہوتی ہے، حالانکہ یہاں اس وقت جس موضوع کو بحث بنایا گیا ہے وہ ایک بہترین موقع پر بہترین بحث ہے، اور نوجوان نسل کو اس سے فائدہ ضرور پہنچے گا اگر یہ بحث عام فہم اندازمیں کی جائے، تاکہ اگر کوئی بڑھتا ہے تو اس کی سمجھ میں مضمون کا متن بھی آئے، سو پلیز کوشش کریں کہ بحث ضرور جاری رہے مگر عام فہم زبان میں،
تاکہ بحث کا فائدہ عوام لناس کو بھی پہنچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میری سب سے درخواست ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس مواد تو بہت ہوتا ہے مگر اس مواد کو صرف چند افراد سمجھ سکتے ہیں، باقی صرف واہ واہ کر کے یہ جتاتے ہیں کہ وہ بھی سمجھ رہے ہیں، ہمارا ادب و شاعری جس طرح آج ہمارے سامنے ہے وہ صرف اسی غلطی کی بنیاد پر ہے، ۔ ۔ ۔
پلیز اس بحث کو ضرور جاری رکھیے یہ وقت کا اہم تقاضہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر عام فہم انداز میں۔۔۔۔۔۔
 

بلال

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
السلام علیکم!

سب سے پہلے تو میں اُن لوگوں کے کام کی مذمت کرتا ہوں جنہوں نے دکانوں کی توڑ پھوڑ کی جن میں ویلنٹائن کے کارڈ موجود تھے۔ ہمارے معاشرے میں یہ ایک نیا کھیل شروع ہو گیا ہے کہ ہر بات کا جواب توڑ پھوڑ سے دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔(آمین)
محترم جناب فاروق سرور خان صاحب
آپ نے لکھا!
اب تک تو میں اس کو کوئی ہلکا پھلکا مذاق سمجھ کر شامل ہوتا رہا اور چھیڑخانیاں کرتا رہے - لیکن آپ کا آرٹیکل پڑھ کر اندازہ ہوا کہ صاحب کہ نظریات شادی کے بارے میں‌مجروح ہیں۔

جناب آپ تو ہلکا پھلکا مذاق سمجھ رہے تھے۔تو میرے محترم بھائی امتِ مسلمہ آج بے شمار مسائل کا شکار ہو چکی ہے اور آپ جیسے قابل لوگ ابھی بھی مذاق ہی سمجھ رہے ہیں؟
جہاں تک میں خرم صاحب کی تحریر کو سمجھ سکا ہوں تو اس میں کہیں یہ ظاہر نہیں ہے کہ محترم خرم کے نظریات شادی کے بارے میں مجروح ہیں بلکہ انہوں نے ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کی ہے نہ کہ مسٹر ویلنٹائن کے نظریات کی۔
لگتا یہ ہے کہ آپ کو لکھنے کا شوق ہے لیکن بنا ریسرچ کئے اور بنا سوچے سمجھے لکھتے ہیں، صرف کہی اور سنی ہوئی لکھتے ہیں ۔ مخالفت اور نفرت کی سیاست۔
فاروق صاحب خدارا ایسی باتیں نہ لکھا کریں۔ اگر آپ اُن سے یعنی خرم صاحب کی تحریر سے اختلاف کرتے ہیں تو اُن کی تحریر سے اقتباس دے کر اور دلیل کے ساتھ اُن کی بات کو رد کریں۔ آپ، میں یا کوئی بھی اس طرح کی باتیں(جیسا کہ آپ نے لکھیں) سے کسی کی عزت نفس مجروح کرنے کی کوئی اتھارٹی نہیں رکھتے۔
جہاں تک لکھنے کا شوق ہے تو حضور آپ، میں اور باقی سارے شوق رکھتے ہیں تو یہاں محفل پر آتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کو اسلام کی خدمت کا شوق ہے تو لکھتا ہے اور کوئی وقت گزاری کے شوق میں، تو کوئی علم حاصل کرنےکے شوق کی خاطر لکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس لئے جناب عالی شوق تو سب کو ہے۔
رہی بات بنا سوچے سمجھے اور ریسرچ کی تو محترم اس تحریر میں مسٹر ویلنٹائن کب ہوا، کہاں ہوا، کس نے مارا، کیوں مارا اور مسٹر ویلنٹائن کے نظریات پر ریسرچ کی ضرورت ہو سکتی ہے باقی باتیں جو ہمارے معاشرے کے بارے میں ہیں وہ صاف صاف نظر آتیں ہیں اور سنائیں بھی دیتی ہیں۔۔۔

آپ کی اسلام کے ایک اور گرانقدر نبی حضرت عیسی علیہ السلام کے پیرو کاروں سے دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے،
محترم کوئی بھی مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کا دشمن نہیں لیکن بات یہ ہے کہ وہ جو خود کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار کہتے ہیں۔
• کیا حقیقتاً وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ہیں؟
• کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی یہ کہا تھا کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں؟ (نعوذبااللہ)
• جو پیروکار کہلوانے والوں کے پاس کتاب ہے کیا وہ واقعی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے؟

سینٹ ویلنٹائین عام عیسائی مبلغوں اور پادریوں کے شادی کی مخالفت بارے میں عمومی نظریات سے مخالفت کے نظریات کا مخالف تھا۔ وہ تاحیات کنوارہ رہنے کو غلط قرار دیتا تھا۔ جس دور میں عیسائی مبلغ اور پادری لوگوں کی شادیاں‌نہیں کرواتے تھے۔ یہ ان کے عیسائی نکاح پڑھایا کرتا تھا۔
جناب، مسٹر ویلنٹائن شادی کے حق میں تھا اور اُن عیسائی مبلغ اور پادریوں کے خلاف تھا جو شادی نہیں کرواتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ مسٹر ویلنٹائن صحیح ہو اور وہ اچھائی کا طلبگار ہو لیکن حضور ہم لوگ اس لئے شادی کے حق میں نہیں کہ مسٹر ویلنٹائن نے کہا تھا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا بلکہ ہم تو اس لئے شادی کے حق میں ہیں کہ اللہ تعالٰی کا حکم ہے جو نبی پاکﷺ کے ذریعے سے ہمیں ملا ہے۔
ہم مسٹر ویلنٹائن کے صحیح نطریات کی وجہ سے اُس کی موت کے دن کو ہی کیوں منانے پر زرو دے رہے ہیں؟
• اگر ایسا کوئی دن منانے کا شوق ہے تو اُس دن کو کیوں نہیں مناتے جس دن اللہ تعالٰی کی طرف سے نکاح کا حکم ملا تھا۔
• آخر ہم حضرت محمدﷺ کی دی ہوئی شریعت کو چھوڑ کر مسٹر ویلنٹائن کے نظریات کے پیچھے ہی کیوں دوڑ رہے ہیں؟
دوسروں کے نظام، نظریات، تہوار اور رسم و رواج وہ لوگ اپناتے ہیں جن کے پاس اپنا کوئی نظام، نظریات، تہوار اور رسم و رواج نہ ہوں۔ لیکن الحمد اللہ ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ اسلام کی صورت میں ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات ملا ہے۔ پھر بھی ہم اسے چھوڑ کر آخر غیر مسلموں کے پیچھے کیوں بھاگتے ہیں؟۔۔۔
محترم تمام نبی علیہ السلام تمام مسلمانوں کے لئے قابلِ عزت و احترام ہیں بلکہ تمام انبیاء علیہ السلام کو ماننے سے ہی ایمان مکمل ہوتا ہے لیکن ہم عمل صرف اور صرف شریعتِ محمدی پر ہی کریں گے کیونکہ ہمیں قرآن پاک پر ہی عمل کرنے کا حکم ملا ہے۔
کیا اگر ایک عیسائی بھی درست بات کرے تو ہم کو اس کی صرف اس لئے مخالفت کرنی چاہئیے کہ وہ عیسائی ہے؟
میرے محترم بھائی ہم کب عیسائیوں کی بات(جو اسلام کے مطابق ہو) کی مخالفت کر رہے ہیں۔ کوئی بات چاہے عیسائی کرے یا مسلمان، اگر وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق ہے تو بات اچھی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اُس کو اس لئے اچھا نہیں سمجھتے کہ یہ ایک عیسائی نے کی ہے یا مسلمان نے، بلکہ ہم اُس کو اچھا اس لئے کہتے ہیں کہ یہ بات اسلام کے اصولوں کے مطابق ٹھیک ہے۔۔۔ اور اسی طرح غلط بات بھی۔۔۔
اب مسٹر ویلنٹائن نے اچھا کام کیا تو ہم اُس دن کو کیوں نہیں مناتے؟ میرے بھائی منائیں تو تب جب ہمارے پاس اس جیسا یا اس سے کم کام ہو یا کچھ نہ ہو۔ ہمارے پاس پورا مہینہ رمضان ہے، ایک نہیں دو دو عیدیں ہیں، اسلامی سال کی بھی شروعات ہوتی ہے، حضورﷺ کی پیدائش کا دن ہے، نزول قرآن کے دن ہیں، اسلامی فتوحات کے دن ہیں، صحابہ اکرام کی پیدائش اور شہادت کے دن ہیں، حج کا دن ہے۔ بہت عظیم کام ہوئے جن کے مقابلے میں مسٹر ویلنٹائن کا نظریہ اور کام کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔
اگر مسٹر ویلنٹائن کی موت کا دن اتنا ہی اچھا ہے جیسے منانا چاہئیے تو کیا اسلام کا وہ پورا 23 سال کا عرصہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا؟ جس میں کبھی جنگِ بدر ہو رہی ہے تو کبھی قرآن نازل ہو رہا ہے، کبھی عبادات کا حکم آ رہا ہے تو کبھی سائنس کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔
آخر ہم اپنی ثقافت اور روایات کو چھوڑ کر ویلنٹائن ڈے منانے پر ہی کیوں بضد ہیں؟
اسلام ایک مکمل "ضابطہ حیات" ہے اور قرآن پاک کوئی چند الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ پر چیز کی خبر دیتا ہے۔ بات تو اپنے اپنے سمجھنے کی ہے کوئی اسے صرف عبادات ہی سمجھ پاتے ہیں تو کوئی زندگی کے چند ایک شعبہ میں ہی اسے دیکھ پاتے ہیں لیکن عقل والوں کے لئے یہ مکمل ہے انہیں ہر چیز کا بتاتا ہے اور ہر علوم کو سمجھاتا ہے۔ بات صرف سمجھنے کی ہے۔

آپ نے لکھا ہے کہ " یہ بیماری اب پاکستان میں بھی پھیل گئی ہے" ۔ آپ سینٹ ویلنٹائین کے شادی کے حامی ہونے کے نظریے کو بیماری کیوں‌سمجھتے ہیں؟
جناب عالی جہاں تک میں خرم صاحب کی تحریر کو سمجھا ہوں تو انہوں نے مسٹر ویلنٹائن کے شادی کے حامی ہونے کے نظریے کو بیماری نہیں کہا بلکہ ویلنٹائن ڈے منانے کے نظریہ کو بیماری کہا ہے۔فاروق بھائی آپ ذرا ایک بار پھر تحریر پڑھ لیں۔
فاروق صاحب اگر آپ کو یا کسی اور کو بھی میری تحریر سے کوئی تکلیف یا دکھ ہو تو میں آپ سب سے معافی چاہتا ہوں اور میری غلطیوں کو معاف کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو درست کرنے کا بھی کہا جائے۔(شکریہ)
محترم فاروق بھائی اور باقی تمام ممبران محفل ایک بات عرض کرتا جاؤں وہ یہ کہ بات ویلنٹائن ڈے منانے یا نہ منانے کی نہیں بلکہ بات تو اسلام کے گزرے ہوئے اُن عظیم 23 سالوں کے تکمیلِ اسلام کی طرف جاتے ہوئے ایک ایک عظیم دن کے ساتھ انصاف کی ہے۔۔۔
اللہ تعالٰی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین)
 
سبحان اللہ اگر ہم کسی اور دن کو عید محبت کا نام دے کر منانا شروع کر دیں تو کیا ہمارے ان اصحاب علم کو کوئی اعتراض ہوگا یا نہیں ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ اس سلسلے میں ایک اور کہانی میں نے بھی سنی ہے ۔

ویلنٹائن ایک لڑکی کا نام تھا جو کہ ایک حاکم کی لڑکی تھی اسکے چاہنے والے کو اس حاکم نے جیل میں ڈال دیا اور وہ چاہنے والا وہیں مر گیا ۔ جب وہ مرا تو فروری کی چودہ تاریخ تھی ۔ اور جب قیدخانے کو کھولا گیا تو اس میں سے اس شخص کے اسکی محبوبہ کو لکھے ہوئے محبت نامے برآمد ہوئے ۔ لوگوں نے اس شخص کے جذبے اور چاہت کو جان کر اسکی موت کے دن کو عید محبت کا نام دے دیا ۔

ایک ہی موضوع پر تین قسم کی رائے تو یہاں مل گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب کسے سچا مانئے یا کسے جھوٹ کہیئے ۔ ایک ہی قسم کی بات کو تین مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے پر ایک ہی رائے بنانا کبھی ممکن نہیں ہوتا لہذا یہ عینک اتار کر ذرا کنوئیں سے سر نکال کر دیکھئے دنیا بہت بڑی ہے ۔

ویسے کوئی بتائے گا کہ ہیر کا مذہب کیا تھا ۔۔۔؟ کیونکہ ہیر رانجھا تو سکھ مذھب کی مذھبی کتاب میں بھی مذکور ہیں
سسی اور پنوں کا کیا مذھب تھا ۔۔۔۔؟ کیونکہ ان کا ذکر قدیم مقامی قصوں میں بھی ملتا ہے
مرزا کس مذھب و مسلک سے تعلق رکھتا تھا کیونکہ کہیں ایسا تو نہیں کہ انکا ذکر کرکے ہم اپنا دھرم بھرشٹ کروا بیٹھیں۔۔۔؟

---------------------------------------
فیصل
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں تو ایک سادہ سی بات سمجھا ہوں‌ کہ ویلنٹائن ڈے کی تاریخ بہت پرانی ہے - اتنی پرانی کہ اسکی اصل کہانی ڈھونڈنا مشکل ہے - لیکن بہت ساری تہذیبوں میں‌یہ دن کسی نہ کسی صورت منایا جاتا تھا حتآکہ ایران میں‌بھی یہ دن کسی اور نام سے منایا جاتا تھا- لیکن اب گلوبائلایزیشن اور انفارمیشن کی ارزاں‌ رسائی سے ایک گلوبل تہذیب وجود میں‌آ رہی ہے - جسے آپ، ہم، سب لوگ مل کر بھی روکنا چاہیں تو یہ گلوبل تہذیب بننے سے نہیں‌ روک سکتے - لہٰذا ہم چاہیں‌ یا نہ چاہیں، روکیں یا نہ روکیں، ‌ یہ تہوار منایا جاتا رہے گا -

ویلنٹائن ڈے وکی کا ربط
ویلنٹائن ڈے ہسٹری ڈات کوم کا ربط
 
ایم بلال صاحب ، آپ کی وکالت کا شکریہ فوتوٹیک کو ضرور ادا کرنا چاہئیے۔

آپ کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ عیسائی بالکل غلط اور مسلمان بالکل صحیح۔ ذرا غور سے دیکھئے، اللہ کی کتاب پر انسانوں کی کتب کا تڑکہ آج ہر فرقہ نے لگایا ہوا ہے۔ عیسائیوں سے بڑھ کر رسول اللہ کو پوجتا ہے اور احساس نہیں کرتا اور پھر بھی یہ گمان ہے کہ شرک نہیں کرتا۔ شائد آپ کا دل دکھے لیکن ہیرو پرستی میں مسلمان عیسائیوں سے کم نہیں ہیں۔ اجتماعی طور پر عید میلاد النبی عبادت کی طرح مناتے ہیں اور کرسمس کو برا کہتے ہیں۔ وضع میں نصاری اور تمدن میں‌ہنود تو بہت پرانی بات ہے۔ اب کہ کوئی 'عقد الزواج' کی تلقین کرتا ہے تو پہلے اس کا مذہب دریافت کرتے ہیں۔ بلکہ دریافت کیا کرنا، تباہ و برباد کرتے ہیں، اور اس تباہی اور بربادی کے لئے رائے عامہ ہموار کرتے ہیں۔ بڑے بڑے آرٹیکل لکھ لکھ کر :)

جس خدا کی عبادت ہم کرتے ہیں ، اسی خدا کی عبادت عیسائی بھی کرتے ہیں۔ اور ان کے عقاید نزول قرآن کے وقت آج سے مختلف نہیں تھے۔ عیسائیوں کی جن برائیوں کا علم آپ کو آج ہے اس کا علم اللہ تعالی کو نزول قرآن کے وقت تھا۔ پھر بھی خدا تعالی کیا فرماتے ہیں؟ استدعا ہے کہ بغور پڑھئے۔ اور دیکھئے کہ گرجوں کی حفاظت کون فرما رہا ہے؟ اور کیوں؟

[AYAH]22:40[/AYAH] یہ وہ لوگ ہیں جو نکال دیے گئے اپنے گھروں سے ناحق صرف (اس قصور پر) کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے اور اگر نہ دفع کرتا رہتا اللہ انسانوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ سے تو ضرور مسمار کردی جاتیں خانقاہیں، گرجے، عبادت خانے او رمسجدیں جن میں لیا جاتا ہے اللہ کا نام کثرت سے۔ اور ضرور مدد کرتا ہے اللہ اُن کی جو اس کی مدد کرتے ہیں۔ یقینا ہے اللہ بہت طاقتور اور زبردست۔

اللہ تعالی تو ان لوگوں پر کوئی اعتراض‌فرماتے نظر نہیں آتے پھر آپ کو کیوں؟ ذرا غور سے دیکھئے۔
[AYAH]2:62[/AYAH] بیشک وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول کیا اور وہ لوگ جو یہودی ہوئے اور عیسائی اور صابی، (ان میں سے) جو بھی ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور کیے اس نے نیک کام تو اُن کے لیے ہے اجر اُن کا اُن کے رب کے پاس اور نہ کسی قسم کا خوف ہے اُن کے لیے اور نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے۔

کہانی کوئی بھی ہو، المیہ بس یہ ہے کہ آئیڈیا کہاں سے آیا ہے؟ اگر ویسٹ سے آیا ہے تو چلئے لڑتے ہیں ، اور اگر 'قدیم ایران (‌میسوپوٹیمیا) کے کسی ملا' نے اپنے خیالات پر اسلام کی مہر لگادی ہے تو 'لگے ٹھیکہ'، بس یہیں شریعہ شریعہ کھیلیں گے ۔مخالفت برائے مخالفت اور ہیرو پرستی پر مبنی تقلید چھوڑئیے ، مخالفت برائے بد اصول کرنا سیکھئے بھائی۔ کفار کہ یہ طریقہ تھا کہ 'رسول اللہ ' کے لئے کہتے تھے کہ ' دیکھو تو کون کہہ رہا ہے' - یہ نہیں دیکھتے تھے کہ کیا فرمایا جارہا ہے۔ کفار کے یہ اطوار چھوڑو اور یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے ، یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ اگر کہنے والا کوئی عیسائی ہے اور نکتہ قرانی اصول پر ہے تو بھائی مخالفت تو نہ کرو۔ بہانہ بہانہ سے۔ بھائی ان بہانوں سے بحث تو جیت سکتے ہو لیکن اپنے دل میں جھانک کر دیکھو، ملامت ہوگی کہ خود کو دھوکہ دیا۔

اب اصل بات کی طرف:
اللہ تعالی نے 'جو تم کو پسند آئیں' ان سے شادی کرنے کا اختیار ہی نہیں بلکہ حکم دیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اس سے دور بھاگتے ہیں اور تردید کرتے ہیں کہ میری شادی تو امی کی پسند سے ہوگی ؟ یا کوئی دسرےبہانے بنا بنا کر۔

بنا دیکھے، بنا جانے پسند کرنے کا کوئی طریقہ ہو سکتا ہے تو بھائی بتاؤ؟ درج ذیل آئت پر کلک کریں اور [ARABIC]فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ [/ARABIC] کے معنوں پر غور کرو کہ 'پس نکاح کرو جو پسند ہوں تم کو، عورتوں میں سے ' --- یہ فطرت سے قریب حکم ہے۔ اور بھلا کس طور ممکن ہے؟ پردے میں رکھ کر؟ الگ جزیرہ میں‌قید کرکے؟ کالے سعودی برقعہ کے اندر ؟‌ یا پھر ظالمان کے نیلے برقعہ میں؟ یا شاید ماں‌بہنوں کی پسند سے؟

گو کہ درج ذیل ترجمہ ہمارے پاکستانی معاشرہ کو نظر میں رکھ کر کیا گیا ہے اور اصل ترجمے سے ذرا دور ہے ۔ لیکن شمشاد بھائی اپنی عربی سے ۔ فانکحوا ما طاب لکم من النساء - کے معنوں‌کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ اگر حکم آپ کی اپنی پسند کا ہے تو اس حکم سے روگردانی کیوں؟ لڑکیوں کو بھی انکار و اقرار کا حق حاصل ہے۔ آیت بعد میں۔

[AYAH]4:3[/AYAH] اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہوتوجوعورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو جو لونڈی تمہارے ملک میں ہو وہی سہی یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے

سخنور صاحب جب بھی کہتے ہیں، بہت خوب کہتے ہیں۔ ان کی گلوبل ویلیج کی بات بار بار پڑھنے اور ہر بار شکریہ ادا کرنے کے قابل ہے۔ اگر ہم دنیا کی صف میں‌ نہیں کھڑے ہونگے تو ضائع ہوجائیں گے۔ ہماری کتاب ، ہمارے ایمان کے مطابق، ہمارے خالق کی لکھی ہوئی ہے، ذرا غور سے دیکھئے، کہ یہ کتنی جدید ہے اور ہماری فطرت سے کتنی قریب ہے؟

بھائی انسانوں کے ساتھ انسان بن کر جینا سیکھنا، وقت کی اہم ضرورت ہے

۔ یہ قابل قبول بات ہے کہ آج آپ کے اور کسی دوسری قوم کے نظریات میں فرق ہو اور آپ کو اور ان کو دونوں کو جینے کا مساوی حق ہو۔ اگر‌انتہا پسندی کا یہی معیار رہا تو مسلمانوں کا عیسائیوں کے ملکوں اور عیسائیوں کا مسلمانوں کو ملکوں میں میں آنا جانا، رہنا سہنا نا ممکن ہو جائے گا۔ ایسی تعلیم کا کیا جواز ہے صاحب؟
 
ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کہتے ہیں یا لکھتے ہیں وہ عام فہم نہیں ہوتا ہے، ہماری بحث اصلاح معاشرہ سے ہٹ کر اپنی علمی قابلیت جھاڑنے کی طرف زیادہ ہوتی ہے، حالانکہ یہاں اس وقت جس موضوع کو بحث بنایا گیا ہے وہ ایک بہترین موقع پر بہترین بحث ہے، اور نوجوان نسل کو اس سے فائدہ ضرور پہنچے گا اگر یہ بحث عام فہم اندازمیں کی جائے، تاکہ اگر کوئی بڑھتا ہے تو اس کی سمجھ میں مضمون کا متن بھی آئے، سو پلیز کوشش کریں کہ بحث ضرور جاری رہے مگر عام فہم زبان میں،
تاکہ بحث کا فائدہ عوام لناس کو بھی پہنچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میری سب سے درخواست ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس مواد تو بہت ہوتا ہے مگر اس مواد کو صرف چند افراد سمجھ سکتے ہیں، باقی صرف واہ واہ کر کے یہ جتاتے ہیں کہ وہ بھی سمجھ رہے ہیں، ہمارا ادب و شاعری جس طرح آج ہمارے سامنے ہے وہ صرف اسی غلطی کی بنیاد پر ہے، ۔ ۔ ۔
پلیز اس بحث کو ضرور جاری رکھیے یہ وقت کا اہم تقاضہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر عام فہم انداز میں۔۔۔۔۔۔

اگر بھائی آپ مجھ سے مخاطب ہیں تو فرمائیے۔ بخوشی کوشش کروں گا کہ مترادف الفاظ استعمال کرکے تحریر کو عام فہم بناؤں ۔ ۔ آپ کی اجازت سے یہ تلخ حقیقت آپ کی نذر، گو کہ اس کا تعلق قطعاً اس دھاگہ سے نہیں‌ہے۔
1987-88 میں جب میں نے اور خلیل احمد نے اردو نستعلیق کا پہلا پہل سوفٹ ویر صدف لکھا تو پہلے 6 ماہ میں ہی کوئی 250 سے زائید اخبار رسالہ اس پر چھپنے لگے۔ ہم دونوں‌نے ان الفاظ کی ایک ڈیٹا بیس بنانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ دو حرفی الفاظ - کا ، کی ، کے ، کو ہٹا کر صرف1800 اور کچھ الفاظ تھے جو 250 اخبار و رسالوں میں‌چھ مہینوں میں استعمال ہوئے تھے۔ گو کہ ہمارے ایک عام طالبعلم کا ذخیرہء‌ الفاظ یقیناَ 1800 الفاظ سے زیادہ ہے لیکن جب ہم اس کا مقابلہ فیروز اللغات سے کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اردو کی اس ڈکشنری میں 60 ہزار سے زیادہ الفاظ ہیں ۔ لیکن ان میں‌سے بیشتر کے معانی ہمارے 12 جماعت پڑھے اشخاص‌کو نہیں آتے ہیں۔ آپ ذرا گوگل پر total words in merriam webster dictionary
ڈھونڈھ کر دیکھئے۔ آپ دیکھیں گے کہ 165 ہزار الفاظ، اور 225 ہزار تعریفات پر مبنی یہ ڈکشنری ہماری کسی بھی ڈکشنری کا منہہ چڑاتی ہے۔ اس میں دس ہزار الفاظ کا اضافہ ہر ایڈیشن پر ہوتا ہے۔

الفاظ ہی وہ بنیاد ہیں جو خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ ذرا چینی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی کوشش کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ بنا الفاظ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے۔

کیا اس سے آپ بھی وہی مطلب سمجھتے ہیں جو میں اور خلیل 1988 میں‌سمجھے تھے؟ کہ ابھی ہماری قوم ایک 1800 الفاظ کے گرد گھومنے والا طفل مکتب ہے؟ اس کو سوچنے کے لئے ابھی مزید الفاظ کی ضرورت ہے؟ اگر ہاں - تو بھائی اس کا علاج کیا ہے؟

دوبار عرض‌ہے کہ بخوشی کوشش کروں گا کہ مترادف الفاظ استعمال کرکے تحریر کو عام فہم بناؤں ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم پہلے تو میں ایم بلال صاحب کا شکریہ ادا کروں گا کہ انھوں نے میری بات کو سمجھا اور آپ کو جواب دیا اب میرے پاس جواب دینے کو کچھ نہیں‌ہے لیکن پھر بھی کوشش کرتا ہوں کچھ نا کچھ کہوں۔

فوٹو ٹیک 81 صاحب،
اب تک تو میں اس کو کوئی ہلکا پھلکا مذاق سمجھ کر شامل ہوتا رہا اور چھیڑخانیاں کرتا رہے - لیکن آپ کا آرٹیکل پڑھ کر اندازہ ہوا کہ صاحب کہ نظریات شادی کے بارے میں‌مجروح ہیں۔
میرے خیال سے میں نے کوئی ایسی بات نہیں‌کی جس سے پتہ چلتا ہو کے میں شادی کے خلاف ہوں انشاءاللہ میں بھی شادی کروں گا اور شادی بھی اپنی پسند کی کروں گا آپ کو بھی دعوت دوں گا اگر آپ آئے
بھائی بات یہ ہے کھانا ہم بھی کھاتےہیں کھانا دوسرے مذہب کے لوگ بھی کھاتے ہیں کپڑے ہم بھی پہنتے ہیں اور ہم بھی پہنتے ہیں اسی طرح شادی وہ بھی کرتے ہیں اور ہم بھی کرتے ہیں لیکن ہم مسلمان ہیں اس لے ہم اسلام کے مطابق شادی کرے گے ایسا نہیں ہو سکتا ہم مسلمان ہوتے ہوئے مندر ، گرجاگھر یا پھر عسائیوں کی عبادت گاہ میں جا کر شادی کرے ۔ ویلنٹائن شادی کے حق میں تھے بے شک شادی کرنا غلط نہیں ہے لیکن بھائی جب ہمارے نبی محمد(ص) کہتے ہیں کے شادی کرو تو پھر ہم ویلنٹائن کی بات پر عمل کرے یا اپنے رسول(ص) کی بات پر

لگتا یہ ہے کہ آپ کو لکھنے کا شوق ہے لیکن بنا ریسرچ کئے اور بنا سوچے سمجھے لکھتے ہیں، صرف کہی اور سنی ہوئی لکھتے ہیں ۔ مخالفت اور نفرت کی سیاست۔
جی ہاں مجھے لکھنے کا شوق ہے لیکن میں نے کبھی سیاست پر نہیں لکھا ۔میں نے کوشش کی ہے اپنے پاکستان کے کلچر کے حوالے سےلکھے ویلنٹائن کون تھا ہم اس بارے میں تو جانتے نہیں لیکن ویلنٹائن ڈے ضرور مناتے ہیں وہ کیوں؟ جس کو آپ مخالفت اور نفرت سمجھ رہے ہیں بہت سارے دوست اس کو اصلاح سمجھ کر عمل کر رہے ہیں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے ہم سب سے پہلے نظر ہی مخالفت کی طرف جاتا ہے حق میں کبھی نہیں جاتا
آپ کی اسلام کے ایک اور گرانقدر نبی حضرت عیسی علیہ السلام کے پیرو کاروں سے دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے، لیک اندازاہ ہوتا ہے کہ آپ کی معلومات سنی سنائی پر مبنی ہیں۔ سینٹ ویلنٹائین عام عیسائی مبلغوں اور پادریوں کے شادی کی مخالفت بارے میں عمومی نظریات سے مخالفت کے نظریات کا مخالف تھا۔ وہ تاحیات کنوارہ رہنے کو غلط قرار دیتا تھا۔ جس دور میں عیسائی مبلغ اور پادری لوگوں کی شادیاں‌نہیں کرواتے تھے۔ یہ ان کے عیسائی نکاح پڑھایا کرتا تھا۔

جی میں مانتا ہوں کے میری معلومات کم ہے اور آپ کے مقابلے میں تو بہت کم ہے
لیکن محترم بات پھر شادی کی طرف آ گی ہے میں نے اس کی مخالفت ہی نہیں کی اور نا کرتا ہوں یہ میں پہلے بھی کہ چکا ہوں
[/quote]

کیا اگر ایک عیسائی بھی درست بات کرے تو ہم کو اس کی صرف اس لئے مخالفت کرنی چاہئیے کہ وہ عیسائی ہے؟
کیا آپ عیسائی مبلغ یا پادری ہیں؟
کیا آپ تاحیاات کنوارہ رہنے کے حامی ہیں؟
کیا آپ عیسائی مبلغین و پادریوں کی طرح شادی کے مخالف ہیں ؟
کیا آپ شادی کے خلاف ہیں؟
عیسائی اگر درست بات کرے گا تو ہم کیوں مخالفت کریں گے لیکن وہ اسلام کے مطابق ہو تو
میں نا تو عیسائی ہوں نا عیسائی مبلغ اور نا پادری ہوں ۔میں صرف ایک عام سا مسلمان ہوں جو یہ چاہتا ہے اگر ہم مسلمان ہے تو اسلام کو کیوں نہیں اپناتے ہم کیوں دوسرے مذہب کے تہوار کو اپناتےہیں کیا قران نہیں نہیں کہا ’’ یہودی اور نصرانی تمہارے کھلے دشمن ہیں“ اگر وہ ہمارے دشمن ہیں تو پھر ہم اپنے کلچر کو چھوڑ کر دوسروں کے کلچر کو کیوں اپناتے ہیں ہم مسلمان ہیں لیکن کیا ہم کو ہماری نئی نسل کو یہ پتہ ہے اسلام کے اہم تہوار کیا کیا ہے کیا وہ جانتے ہیں مسلمانوں میں کتنے ایسے مسلمان گزرے ہیں جنوں نے دنیا پر حکومت کی ہے بہت کم جانتے ہیں
ہم تو یہ سوچتے ہیں دنیا چاند پر چلی گی ہے اور ہم ابھی تک بحث میں ہی پڑے ہوئے ہیں جو چاند تک گے ہیں وہ بھی اسلام کی تعلیمات پر عمل کر کہ ہی گے ہیں
ہم کو اسلام کے بارے میں اپنے کلچر کے بارے مین تو کچھ پتہ نہیں لیکن یہ پتہ ہے یہ ویلنٹائن ڈے ہے ، یہ دیوالی ، ہولی ، کرسمس ، بسنت ہیں بہت افسوس کے ساتھ ہم اصلاح کی طرف تو آتے ہی نہیں تنقید کرنا تو ہمارا فرض ہے اور ہم تنقید کے سوا کچھ نہیں کر سکتے
آپ نے لکھا ہے کہ " یہ بیماری اب پاکستان میں بھی پھیل گئی ہے" ۔ آپ سینٹ ویلنٹائین کے شادی کے حامی ہونے کے نظریے کو بیماری کیوں‌سمجھتے ہیں؟ آپ کے آرٹیکل میں اس بات پر بالکل روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔ اس پر روشنی ڈالئے۔


آپ نے ہمشہ تنقید کی ہے اور وہ بھی ایسی بات پر جو لکھنے والے نے کبھی سوچی بھی نہیں ہے میں شادی کے خلاف نہیں ہوں لیکن دوسروں کےکلچر کو اپنانے کے خلاف ہوں

معافی چاہتا ہوں
 

الف نظامی

لائبریرین
مگر آخر میں وہ پاکستان پر لے گئے کہ آئیں دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کیسے منایا جا رہا ہے۔ اور پھر انہوں نے دکھایا کہ کچھ مسلح ٹولے شہروں میں پھر رہے ہیں اور وہ دکانیں ٹوڑ پھوڑ رہے ہیں جہاں ویلنٹائن ڈے وش کارڈز وغیرہ موجود ہیں۔
کونسا چینل تھا۔اور کہاں یہ توڑ پھوڑ ہوئی ۔ میری نظر سے تو نہیں گذری۔
مہوش کیا آپ یہ نہیں سمجھتیں کہ یہ تہوار ہمارے اوپر ذرائع ابلاغ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے منافع کمانے کی غرض سے مسلط کیا ہے؟
اور جو حیا کا جنازہ اس ویلنٹائن کے نام پر نکلتا ہے کیا آپ کی نظر میں ہے؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ایم بلال صاحب ، آپ کی وکالت کا شکریہ فوتوٹیک کو ضرور ادا کرنا چاہئیے۔

آپ کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ عیسائی بالکل غلط اور مسلمان بالکل صحیح۔ ذرا غور سے دیکھئے، اللہ کی کتاب پر انسانوں کی کتب کا تڑکہ آج ہر فرقہ نے لگایا ہوا ہے۔ عیسائیوں سے بڑھ کر رسول اللہ کو پوجتا ہے اور احساس نہیں کرتا اور پھر بھی یہ گمان ہے کہ شرک نہیں کرتا۔ شائد آپ کا دل دکھے لیکن ہیرو پرستی میں مسلمان عیسائیوں سے کم نہیں ہیں۔ اجتماعی طور پر عید میلاد النبی عبادت کی طرح مناتے ہیں اور کرسمس کو برا کہتے ہیں۔ وضع میں نصاری اور تمدن میں‌ہنود تو بہت پرانی بات ہے۔ اب کہ کوئی 'عقد الزواج' کی تلقین کرتا ہے تو پہلے اس کا مذہب دریافت کرتے ہیں۔ بلکہ دریافت کیا کرنا، تباہ و برباد کرتے ہیں، اور اس تباہی اور بربادی کے لئے رائے عامہ ہموار کرتے ہیں۔ بڑے بڑے آرٹیکل لکھ لکھ کر :)

جس خدا کی عبادت ہم کرتے ہیں ، اسی خدا کی عبادت عیسائی بھی کرتے ہیں۔ اور ان کے عقاید نزول قرآن کے وقت آج سے مختلف نہیں تھے۔ عیسائیوں کی جن برائیوں کا علم آپ کو آج ہے اس کا علم اللہ تعالی کو نزول قرآن کے وقت تھا۔ پھر بھی خدا تعالی کیا فرماتے ہیں؟ استدعا ہے کہ بغور پڑھئے۔ اور دیکھئے کہ گرجوں کی حفاظت کون فرما رہا ہے؟ اور کیوں؟

[AYAH]22:40[/AYAH] یہ وہ لوگ ہیں جو نکال دیے گئے اپنے گھروں سے ناحق صرف (اس قصور پر) کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے اور اگر نہ دفع کرتا رہتا اللہ انسانوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ سے تو ضرور مسمار کردی جاتیں خانقاہیں، گرجے، عبادت خانے او رمسجدیں جن میں لیا جاتا ہے اللہ کا نام کثرت سے۔ اور ضرور مدد کرتا ہے اللہ اُن کی جو اس کی مدد کرتے ہیں۔ یقینا ہے اللہ بہت طاقتور اور زبردست۔

اللہ تعالی تو ان لوگوں پر کوئی اعتراض‌فرماتے نظر نہیں آتے پھر آپ کو کیوں؟ ذرا غور سے دیکھئے۔
[AYAH]2:62[/AYAH] بیشک وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول کیا اور وہ لوگ جو یہودی ہوئے اور عیسائی اور صابی، (ان میں سے) جو بھی ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور کیے اس نے نیک کام تو اُن کے لیے ہے اجر اُن کا اُن کے رب کے پاس اور نہ کسی قسم کا خوف ہے اُن کے لیے اور نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے۔

کہانی کوئی بھی ہو، المیہ بس یہ ہے کہ آئیڈیا کہاں سے آیا ہے؟ اگر ویسٹ سے آیا ہے تو چلئے لڑتے ہیں ، اور اگر 'قدیم ایران (‌میسوپوٹیمیا) کے کسی ملا' نے اپنے خیالات پر اسلام کی مہر لگادی ہے تو 'لگے ٹھیکہ'، بس یہیں شریعہ شریعہ کھیلیں گے ۔مخالفت برائے مخالفت اور ہیرو پرستی پر مبنی تقلید چھوڑئیے ، مخالفت برائے بد اصول کرنا سیکھئے بھائی۔ کفار کہ یہ طریقہ تھا کہ 'رسول اللہ ' کے لئے کہتے تھے کہ ' دیکھو تو کون کہہ رہا ہے' - یہ نہیں دیکھتے تھے کہ کیا فرمایا جارہا ہے۔ کفار کے یہ اطوار چھوڑو اور یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے ، یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ اگر کہنے والا کوئی عیسائی ہے اور نکتہ قرانی اصول پر ہے تو بھائی مخالفت تو نہ کرو۔ بہانہ بہانہ سے۔ بھائی ان بہانوں سے بحث تو جیت سکتے ہو لیکن اپنے دل میں جھانک کر دیکھو، ملامت ہوگی کہ خود کو دھوکہ دیا۔

اب اصل بات کی طرف:
اللہ تعالی نے 'جو تم کو پسند آئیں' ان سے شادی کرنے کا اختیار ہی نہیں بلکہ حکم دیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اس سے دور بھاگتے ہیں اور تردید کرتے ہیں کہ میری شادی تو امی کی پسند سے ہوگی ؟ یا کوئی دسرےبہانے بنا بنا کر۔

بنا دیکھے، بنا جانے پسند کرنے کا کوئی طریقہ ہو سکتا ہے تو بھائی بتاؤ؟ درج ذیل آئت پر کلک کریں اور [ARABIC]فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ [/ARABIC] کے معنوں پر غور کرو کہ 'پس نکاح کرو جو پسند ہوں تم کو، عورتوں میں سے ' --- یہ فطرت سے قریب حکم ہے۔ اور بھلا کس طور ممکن ہے؟ پردے میں رکھ کر؟ الگ جزیرہ میں‌قید کرکے؟ کالے سعودی برقعہ کے اندر ؟‌ یا پھر ظالمان کے نیلے برقعہ میں؟ یا شاید ماں‌بہنوں کی پسند سے؟

گو کہ درج ذیل ترجمہ ہمارے پاکستانی معاشرہ کو نظر میں رکھ کر کیا گیا ہے اور اصل ترجمے سے ذرا دور ہے ۔ لیکن شمشاد بھائی اپنی عربی سے ۔ فانکحوا ما طاب لکم من النساء - کے معنوں‌کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ اگر حکم آپ کی اپنی پسند کا ہے تو اس حکم سے روگردانی کیوں؟ لڑکیوں کو بھی انکار و اقرار کا حق حاصل ہے۔ آیت بعد میں۔

[AYAH]4:3[/AYAH] اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہوتوجوعورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو جو لونڈی تمہارے ملک میں ہو وہی سہی یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے

سخنور صاحب جب بھی کہتے ہیں، بہت خوب کہتے ہیں۔ ان کی گلوبل ویلیج کی بات بار بار پڑھنے اور ہر بار شکریہ ادا کرنے کے قابل ہے۔ اگر ہم دنیا کی صف میں‌ نہیں کھڑے ہونگے تو ضائع ہوجائیں گے۔ ہماری کتاب ، ہمارے ایمان کے مطابق، ہمارے خالق کی لکھی ہوئی ہے، ذرا غور سے دیکھئے، کہ یہ کتنی جدید ہے اور ہماری فطرت سے کتنی قریب ہے؟

بھائی انسانوں کے ساتھ انسان بن کر جینا سیکھنا، وقت کی اہم ضرورت ہے

۔ یہ قابل قبول بات ہے کہ آج آپ کے اور کسی دوسری قوم کے نظریات میں فرق ہو اور آپ کو اور ان کو دونوں کو جینے کا مساوی حق ہو۔ اگر‌انتہا پسندی کا یہی معیار رہا تو مسلمانوں کا عیسائیوں کے ملکوں اور عیسائیوں کا مسلمانوں کو ملکوں میں میں آنا جانا، رہنا سہنا نا ممکن ہو جائے گا۔ ایسی تعلیم کا کیا جواز ہے صاحب؟


جناب آپ نے جب بھی اختلاف کیا ہے وہ بے وجہ ہی کیا ہے جس بات کا کوئی زکر ہی نہیں ہوتا ہے آپ اس کو اختلافی بات بنا کر پیش کر دیتے ہیں ایک دھاگے میں پہلے بھی آپ کی تنقید پڑھی تھی اس میں بھی آپ نے بے وجہ کا ہی اختلاف کیا تھا ہم مانتے ہیں آپ کی تعلیم و معلومات ہم سب سے زیادہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں آپ کی او ہمارے سوچ ایک ہو جو آپ سمجھ رہیں ہو وہ ہم بھی سمجھے ہر کسی کی سوچ الگ ہے میرے بھائی آپ اس مضمون کو ایک بار پھر پڑھے اور اس کے بعد ایک بار پھر پڑھے اور مجھے بتائے میں نے کس جگہ پر شادی کی مخالفت کی ہے کس جگہ پر میں نے یہ لکھا ہے کہ میں شادی کے خلاف ہوں

اور ہاں بھائی آپ بات کو کسی اور طرف لے کر جا رہے ہیں میں نے بھی یہی بات پہلے بھی کی ہے کہ اگر ہم کو اسلام کا پتہ ہے تو بس اتنا پتا ہے کہ کون شعیہ ہے کون سنی اور کان وہابی ہے میری جان ہم تو بس اس بات پر ہی بھنسے ہوئے ہیں ابھی تک تو ہم فرقوں سے باہر نہیں‌نکل سکے تو ہم دوسوں کو اسلام کی طرف کیسے لائے گے

اگر آپ میلاد منانے پر اختلاف کرتے ہیں اور کرسمس منانے پر اختلاف نہیں کرتے تو محترم آپ میلاد نا منائے کرسمس منا لیا کرے آپ کو کوئی رکھ تونہیں رہا ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کونسا چینل تھا۔اور کہاں یہ توڑ پھوڑ ہوئی ۔ میری نظر سے تو نہیں گذری۔
مہوش کیا آپ یہ نہیں سمجھتیں کہ یہ تہوار ہمارے اوپر ذرائع ابلاغ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے منافع کمانے کی غرض سے مسلط کیا ہے؟
اور جو حیا کا جنازہ اس ویلنٹائن کے نام پر نکلتا ہے کیا آپ کی نظر میں ہے؟


جی ہاں یہ بات ہے ہم اس طرف تو توجہ نہیں دیتے اور اور مخالفت شروع کر دیتے ہیں شکریہ الف نظامی صاحب
 
ہم ہر جگہ دوہرا معیار اپناتے ہیں۔ ایک غیر ثقافتی یا دوسرے مذہب سے آنے والے تہوار کی تو پرزور حمایت کرتے ہیں لیکن اپنے مذہب کے حوالہ سے کوئی تہوار منایا جائے تو سخت مخالفت۔ یا تو آپ برابر کا معیار اپنائیں۔ تہوار اور خوشی منانے کی آزادی دیتے ہیں تو مکمل دیں ورنہ سخت رویہ نہ اپنایا جائے۔ ویلنٹائن کی حمایت میں گھما پھرا کر دلیل لاتے ہیں، اخلاقی پہلو پر زور دیتے ہیں کہ اس کو ٹھیک طریقے سے منالیا جائے۔۔۔۔ لیکن دوسری طرف جب اپنا مطلب آتا ہے تو مؤقف بدل جاتا ہے، اصول بدل جاتے ہیں۔

اگر آپ نے روشن خیالی کا مظاہرہ کرنا ہے تو اعتدال سے کام لیں اور دونوں جانب سے فراخدلی کا مظاہرہ کریں اور تہواروں میں آنے والی خرابیوں کی اصلاح کریں۔ یا پھر ڈنڈے پکڑ کر انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے رہیں اور خود آپ اپنا مذاق اڑائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاروق سرور صاحب! انتہائی معذرت کے ساتھ کہ آپ سادہ سی تحریروں کے جواب میں بھی بہت تابڑ توڑ حملے اور چبھنے والا اندازِ تحریر اپناتے ہیں۔ دلائل میں وزن بھی ہو تو تحریر بہت تلخ ہوجاتی ہے۔ اس سے تھوڑا پرہیز کریں تو تحریر کا لطف آئے گا۔ امید ہے برا نہیں منائیں گے۔
 

دوست

محفلین
اگر بھائی آپ مجھ سے مخاطب ہیں تو فرمائیے۔ بخوشی کوشش کروں گا کہ مترادف الفاظ استعمال کرکے تحریر کو عام فہم بناؤں ۔ ۔ آپ کی اجازت سے یہ تلخ حقیقت آپ کی نذر، گو کہ اس کا تعلق قطعاً اس دھاگہ سے نہیں‌ہے۔
1987-88 میں جب میں نے اور خلیل احمد نے اردو نستعلیق کا پہلا پہل سوفٹ ویر صدف لکھا تو پہلے 6 ماہ میں ہی کوئی 250 سے زائید اخبار رسالہ اس پر چھپنے لگے۔ ہم دونوں‌نے ان الفاظ کی ایک ڈیٹا بیس بنانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ دو حرفی الفاظ - کا ، کی ، کے ، کو ہٹا کر صرف1800 اور کچھ الفاظ تھے جو 250 اخبار و رسالوں میں‌چھ مہینوں میں استعمال ہوئے تھے۔ گو کہ ہمارے ایک عام طالبعلم کا ذخیرہء‌ الفاظ یقیناَ 1800 الفاظ سے زیادہ ہے لیکن جب ہم اس کا مقابلہ فیروز اللغات سے کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اردو کی اس ڈکشنری میں 60 ہزار سے زیادہ الفاظ ہیں ۔ لیکن ان میں‌سے بیشتر کے معانی ہمارے 12 جماعت پڑھے اشخاص‌کو نہیں آتے ہیں۔ آپ ذرا گوگل پر total words in merriam webster dictionary
ڈھونڈھ کر دیکھئے۔ آپ دیکھیں گے کہ 165 ہزار الفاظ، اور 225 ہزار تعریفات پر مبنی یہ ڈکشنری ہماری کسی بھی ڈکشنری کا منہہ چڑاتی ہے۔ اس میں دس ہزار الفاظ کا اضافہ ہر ایڈیشن پر ہوتا ہے۔

الفاظ ہی وہ بنیاد ہیں جو خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ ذرا چینی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی کوشش کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ بنا الفاظ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے۔

کیا اس سے آپ بھی وہی مطلب سمجھتے ہیں جو میں اور خلیل 1988 میں‌سمجھے تھے؟ کہ ابھی ہماری قوم ایک 1800 الفاظ کے گرد گھومنے والا طفل مکتب ہے؟ اس کو سوچنے کے لئے ابھی مزید الفاظ کی ضرورت ہے؟ اگر ہاں - تو بھائی اس کا علاج کیا ہے؟

دوبار عرض‌ہے کہ بخوشی کوشش کروں گا کہ مترادف الفاظ استعمال کرکے تحریر کو عام فہم بناؤں ۔
بھائی جی اس موضوع سے ہٹ کر میں صرف لسانیات کے نکتہ نظر سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے یہ جو 1800 الفاظ کی بات کی ہے یہ بالکل سچ ہے۔ ایک عام اہل زبان کے لیے 1000 الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ شاید آپ کو جان کر حیرت ہو کہ انگریزی بولنے کے لیے آپ کو مریم ویبسٹر ڈکشنری حفظ کرنے کی ضرورت نہیں صرف 800 الفاظ‌ کے ساتھ آپ زندگی کی ہر سچوئیشن میں بہترین انداز میں انگریزی کے ذریعے اظہار کرسکتے ہیں۔
زبان کے الفاظ جو لغات میں بند ہیں اور وہ جو عام استعمال ہوتے ہیں ہر کسی کی اپنی اہمیت ہے۔ اخبارات و رسائل کی آپ نے بات کی یہ وہ ذرائع ہیں جو عام بول چال سے زیادہ متعلق ہوتے ہیں، انھیں عام آدمی نے پڑھنا ہے اور اور عام آدمی کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ چناچہ ان میں‌ 1800 بھی شاید زیادہ ہوجائیں۔
جہاں تک آپ کی یہ بات کہ الفاظ کی بنیاد پر خیالات ہوتے ہیں یہ بڑی لمبی بحث ہے کہ زبان سے خیالات جنم لیتے ہیں یا خیالات کے لیے زبان محض ایک لباس ہے۔۔ ادب اور عام روزمرہ کی زبان میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ایک ادیب اپنی تخلیق کو لازوال بنانے کے لیے الفاظ کا سہارا لیتا ہے۔ زبان و بیان کی خوبصورتی،انوکھا پن، نئے یا پرانے نایاب الفاظ کو استعمال کرکے یا انھیں نئے معانی دے کر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اخبارات و رسائل کی زبان اس سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ وہاں آپ اردو کے 1850 کے زمانے کے الفاظ استعمال کرنا شروع کردیں تو گئے کام سے۔
ایک آخری بات ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنے کی صورت میں بھی اہل زبان کی ذخیرہ الفاظ کی حد متاثر ہوتی ہے۔ جیسے ہمارے ہاں‌ انگریزی کے الفاظ اردو میں بولے جاتے ہیں۔ چونکہ صارف جانتا ہے کہ دوسرا بندہ اس کی بات "سمجھ" رہا ہے اس لیے وہ اس کی جگہ اردو کا نسبتًا کم مستعمل لفظ نہیں لگاتا۔ اگر آپ آج کی روز مرہ میں دیکھیں تو 1800 الفاظ کی جو فہرست آج بنے گی اس میں انگریزی کے الفاظ کم از کم ایک سو تو ضرور ہونگے۔
وسلام
 
کیا اس سے آپ بھی وہی مطلب سمجھتے ہیں جو میں اور خلیل 1988 میں‌سمجھے تھے؟ کہ ابھی ہماری قوم ایک 1800 الفاظ کے گرد گھومنے والا طفل مکتب ہے؟ اس کو سوچنے کے لئے ابھی مزید الفاظ کی ضرورت ہے؟ اگر ہاں - تو بھائی اس کا علاج کیا ہے؟

دوبار عرض‌ہے کہ بخوشی کوشش کروں گا کہ مترادف الفاظ استعمال کرکے تحریر کو عام فہم بناؤں ۔[/quote]

نہیں میں نے کسی کو خاص طور پر مخاطب نہیں کیا تھا۔۔۔۔ مجھے تو ابھی اردو کی تیکنیکس کا علم بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں نے سب کو مخاطب کیا ہے۔۔۔۔ تاکہ کوئی مثبت بحث مثبت نتائج بھی پیدا کرے۔۔۔۔ کیونکہ عام قاری کو صرف عام قاری سمجھیں۔۔۔۔ اس کی سطح پر آکر بات کریں تاکہ وہ پڑھنے سے قبل بھاگ نا جائے یا گاڑھی تحریر سمجھ کر پڑھنے کے بجائے کسی اور طرف چلا جائے۔ ۔ ۔ یہ سوچ کر لکھیں کہ جو کچھ کہ رہے ہیں وہ صرف میمبرز کی حد تک نہ ہو بلکہ وزیٹرز کے لئے بھی ہو۔۔۔۔ کیونکہ ان کی تعداد نسبتا زیادہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ
 
جناب آپ نے جب بھی اختلاف کیا ہے وہ بے وجہ ہی کیا ہے جس بات کا کوئی زکر ہی نہیں ہوتا ہے آپ اس کو اختلافی بات بنا کر پیش کر دیتے ہیں ایک دھاگے میں پہلے بھی آپ کی تنقید پڑھی تھی اس میں بھی آپ نے بے وجہ کا ہی اختلاف کیا تھا ہم مانتے ہیں آپ کی تعلیم و معلومات ہم سب سے زیادہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں آپ کی او ہمارے سوچ ایک ہو جو آپ سمجھ رہیں ہو وہ ہم بھی سمجھے ہر کسی کی سوچ الگ ہے میرے بھائی آپ اس مضمون کو ایک بار پھر پڑھے اور اس کے بعد ایک بار پھر پڑھے اور مجھے بتائے میں نے کس جگہ پر شادی کی مخالفت کی ہے کس جگہ پر میں نے یہ لکھا ہے کہ میں شادی کے خلاف ہوں

اور ہاں بھائی آپ بات کو کسی اور طرف لے کر جا رہے ہیں میں نے بھی یہی بات پہلے بھی کی ہے کہ اگر ہم کو اسلام کا پتہ ہے تو بس اتنا پتا ہے کہ کون شعیہ ہے کون سنی اور کان وہابی ہے میری جان ہم تو بس اس بات پر ہی بھنسے ہوئے ہیں ابھی تک تو ہم فرقوں سے باہر نہیں‌نکل سکے تو ہم دوسوں کو اسلام کی طرف کیسے لائے گے

اگر آپ میلاد منانے پر اختلاف کرتے ہیں اور کرسمس منانے پر اختلاف نہیں کرتے تو محترم آپ میلاد نا منائے کرسمس منا لیا کرے آپ کو کوئی رکھ تونہیں رہا ہے

سب سے پہلے تو آپ کے حد درجہ مخلصانہ جواب کا شکریہ۔
کیا میرا 'اختلاف ' بے وجہ ہے؟
بقول آپ کے، آپ تو صرف 'ویلنٹائین ڈے منانے ' پر تنقید کر رہے تھے، وہ بھی اس لئے کہ ہم کو پتہ ہی نہیں کہ ویلنٹانین کون تھا یا کون تھی۔ صاحب ؛ویلنٹائین کو بھیجیں کسی اور طرف۔ بغور دیکھیں، آپ 'ویلنٹائین ڈے منانے ' پر تنقید نہیں کررہے ۔ آپ کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کوئی کیا مناتا ہے ، اس سے مجھ کو کیا اور آپ کو کیا؟ بات صرف اتنی ہے کہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر ہم ہر اس حرکت، سمبل، عادت ، تحریک یا یوم کے خلاف ہیں جہاں کسی طور پر بھی کوئی شخص اپنی زندگی کی ساتھی کے ساتھ کسی طور پر اظہار پسندیدگی کرتا یا کرتی ہے۔ اگر یہ کام 'ویلینٹائین کاعرس' منا کر کیا جائے تو ناقابل قبول۔ لیکن اگر یہی کام کسی اور کا دن یا عرس منا کر کیا جائے تو قابل قبول۔

اب آپ سے مخاطب نہیں۔ عمومی بات کہہ رہا ہوں۔
چلئے دن کو منانے کے بارے میں دیکھتے ہیں۔ کیا کوئی بھی اس کا مخالف ہے؟ صرف چند مثالیں۔
داتا گنج بخش کا دن یعنی عرس اجتماعی طور پر منایا جاتا ہے۔ کیا ہم نے اس کی مخالفت میں بارے میں‌کسی کی بھی کوئی تحریر دیکھی؟
معین الدین چشتی کا دن یعنی عرس اجتماعی طور پر منایا جاتا ہے؟ کیا ہم نے اس کی مخالفت میں بارے میں‌کسی کی بھی کوئی تحریر دیکھی؟
سیہون شریف میں قبر پوجا کی جاتی ہے، کوئی مخالفت نہیں
کراچی سے خیبر تک ایسی قبروں‌اور عرسوں‌کا تانتا بندھا ہے۔ ہر دن کسی کا عرس منایا جارہا ہوتا ہے۔ لیکن یہ دیکھ کر بھی ہم کسی اور طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ اگر کوئی ہم سے پوچھتا ہے کہ اسلام میں یہ جائز ہے؟ تو یہ کہہ کر ایک طرف ہو جاتے ہیں کہ --- بھائی ، یہ تو کوئی اور لوگ ہیں، ہم ایسا تھوڑی کرتے ہیں، ہمارا اسلام تو کچھ اور ہے - صاحب یہ خاموشی یقیناً مکمل سپورٹ‌ ہے۔ ورنہ ہم کو اس بارے میں بھی تحاریر نظر آیا کرتیں۔

یہ خاموشی کیوں؟ اس لئے کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اس بارے میں کچھ کہا تو کچھ لوگوں کے احساسات کو ٹھیس پہنچ جائے گی۔ تو بھائی اسی طرح یہ عیسائی بھی ہیں، ان کی اگر کچھ سوچیں خراب ہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہ ہوا کہ ان کے احساسات کو زبردستی ٹھیس پہنچائی جائے۔

اب آئیے ا ُس آرٹٰیکل کی طرف، اگر کوئی یہ نہیں جانتا کہ بی بی ویلنٹائین یا بابا ویلینٹائین کا دن کیوں‌منایا جاتا ہے تو معصومیت کی انتہا ہے۔ میں نہ اس دن کو منانے کی مخالفت میں ہوں اور نہ اس کو موافقت میں۔ لیکن جس جذبہ کے اظہار کے لئے یہ یا اس سے ملتا کوئی دن منایا جائے یا کسی طور بھی اس کا اظہار کیا جائے ۔ وہ جذبہ ہے -- اظہار پسندیدگی -- چاہے شادی سے پہلے ہو یا بعد، جس کے اظہار کو عام طور پر " بے حیائی " ‌تصور کیا جاتا ہے۔ جو بھی لکھتا ہے - اس -- اظہار پسندیدگی -- کی مخالفت میں تپاک جاں سے لکھتا ہے - بھائی کیوں؟ آپ اس خیال پر روشنی ڈالئے ۔۔۔۔۔
 
Top