۔۔۔ لوہ چُون۔۔۔

بھلکڑ

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لوہ چُون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



کراچی کی سڑکوں پر صبح سات بجے سے پہلے ٹریفک بُہت کم ہوتا ہے۔اپنی بائیک پر مُجھے بہ مُشکل 25 منٹ لگتے ہیں اور میں اپنے دفتر پہنچ جاتا ہوں۔البتہ شام پانچ بجے جب میں چُھٹی کر کے گھر جا رہا ہوتا ہوں تو سڑکوں پر ٹریفک اُبل رہا ہوتا ہے۔میرا تعلق بھی اُس گروہ سے ہے جو دورانِ ڈرائیونگ کِسی ایمبولینس کے سائرن کی چنگھاڑتی فریاد کے مُنتظر رہتے ہیں۔ایمبولینس کے سائرن کی آواز کے سماعت سے ٹکراتے ہی مُسّرت کی ایک لہر دوڑ اُٹھتی ہے کہ چلو کُچھ منٹ جلدی گھر پُہنچ جائیں گے۔آج بھی جب میں دفتر سے چُھٹی کر کے نِکلا تو روڈ معمول کے مُطابق ٹریفک کے دباﺅ کا شِکار تھا۔میں بھی بیزاری سے اِس بہاﺅ میں بہنے لگا۔چند منٹ ہی گُزرے ہوں گے کہ قِسمت نے یاوری کی اور ایک ایمبولینس کی گُھٹی گُھٹی فریادی چنگھاڑ میری سماعت سے ٹکرائی۔حسبِ عادت میرے اعصاب تَن چُکے تھے۔میں سُست رفتاری سے رینگتی ٹریفک میں ایمبولینس کا اِنتظا ر کرنے لگا۔تھوڑی دیر میں ایمبولینس میرے سر پہ تھی۔میں نے ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اُسے فوراً راستہ دیا اور اگلے ہی لمحے ایک غوطہ لگاتے ہوئے میں نے اپنی بائیک ایمبولنس کے پیچھے لگا دِی۔اب میں پُرسُکون تھا کہ آج پھر ایمبولینس کی آڑ میں تھوڑا جلدی گھر پُہنچ جاﺅں گا۔اِس راز سے میں اکیلا واقف نہیں تھا۔دس کے قریب موٹر سائیکلیں اور تقریباً پانچ کاریں ایمبولینس کے ساتھ ایسے چپکی ہوئی جا رہی تھیں جیسے مقناطیس کے ساتھ لوہ چُون۔یہ اَمن فاﺅنڈیشن کی جدید ایمبولینس تھی۔اِس کا سائرن بُہت طاقتور تھا اِس لئے اِسے راستہ لینے میں زیادہ مُشکل پیش نہیں آرہی تھی۔مُجھے اِس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہ کِسی کو لینے جا رہی تھی یا لے کر جا رہی تھی۔میر ے لئے وہ صِرف ایک جھاڑو تھی جو میرے لئے روڈصاف کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔اَچانک چِرچِراہٹ کی بھیانک آواز نے مُجھے دہلا دیا۔اَبھی میں اُس آواز کی دہشت سے ہی نہیں سَنبھلا تھا کہ میں پُوری طاقت سے اُس ایمبولینس کے عقب سے جا ٹکرایا۔میرے اُوپر جیسے بندوں اور بائیکوں کی بارش ہونے لگی۔شاید ایمبولینس نے کِسی رُکاوٹ کے سبب ہنگامی بریک لگائی تھی۔میں درد کی شِدت سے تڑپ رہا تھا۔دائیں ٹانگ گُھٹنے سے مُخالف سمت میں مُڑ چُکی تھی۔البتہ سر ہلمٹ کی وجہ سے محفوظ تھا۔میں دھیرے دھیرے غُنودگی کی کیفیت میں جا رہاتھا۔چند اَجنبی ہاتھوں پہ ڈولتا ہوا میں ایمبولینس میں پُہنچ چُکا تھا۔میرے پہلو میں شاید کُچھ اور بھی عجلت پسند پڑے تھے۔ایمبولینس کا فریادی سائرن پُوری طاقت سے بَج رہا تھا۔مِقناطیس کے گِرد ایک بار پھر لو ہ چُون اِکٹھا ہو رہا تھا۔مُجھے لگا جیسے وہ سب میرے بارے میں فکر مند تھے اور میری خیریت جاننے کے لئے میر ے ساتھ اسپتال پہنچنا چاہتے ہیں۔


بشکریہ (بک فیس)
 

شمشاد

لائبریرین
یہاں بھی اکثر یہی صورتحال ہوتی ہے کہ ایمبولینس کے پیچھے گاڑیاں دوڑاتے ہیں جو کہ انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔
 
Top