ہیں گردنیں تنی ہوئی، کالر کھڑے ہوئے - عابد صدیق

حسان خان

لائبریرین
ہیں گردنیں تنی ہوئی، کالر کھڑے ہوئے
اربابِ عشق رنگِ زمانہ میں ڈھل گئے!
اندر تھی ایسی آگ کہ سینہ جھلس گیا
باہر کڑی وہ دھوپ کہ پتھر چٹخ گئے
جھکڑ چلے وہ رات کہ ننگے ہوئے درخت
بادل چہار سمت تُلے کے تُلے رہے
کچھ حادثاتِ دہر کا معیار بھی تو ہو
بجلی گرے وہ دل پہ کہ کڑکا خدا سنے
اٹھا ہے یوں غبار کہ ہے غرق آسماں
ہے کوئی جو بچا ہو کہ خاک اُس کے سر پڑے
کیا حشر ہے کہ کان لپیٹے پڑے ہیں لوگ
اب دردِ دل کہے جو کوئی تو کسے کہے
عابد یہ آدمی کی اذیت کا دور ہے
اچھے رہے وہ لوگ یقیناً، جو مر گئے
(عابد صدیق)
۱۹۶۷ء
 
Top