امجد اسلام امجد ہَوا بُرد

حسرت جاوید

محفلین

ہَوا بُرد

مِرے ہم سَفر
مِرے جسم و جاں کے ہر ایک رشتے سے معتبر، مرے ہم سَفر
تجھے یاد ہیں! تجھے یاد ہیں!
وہ جو قربتوں کے سُرور میں
تری آرزو کے حصار میں
مِری خواہشوں کے وفور میں
کئی ذائقے تھے گُھلے ہُوئے
درِ گلستاں سے بہار تک
وہ جو راستے تھے، کُھلے ہُوئے!
سرِ لوحِ جاں،
کسی اجنبی سی زبان کے
وہ جو خُوشنما سے حروف تھے!
وہ جو سرخوشی کا غبار سا تھا چہار سُو
جہاں ایک دُوجے کے رُوبرو
ہمیں اپنی رُوحوں میں پھیلتی کسی نغمگی کی خبر ملی
کِسی روشنی کی نظر ملی،
ہمیں روشنی کی نظر ملی تو جو ریزہ ریزہ سے عکس تھے
وہ بہم ہُوئے
وہ بہم ہُوئے تو پتہ چلا
کہ جو آگ سی ہے شرر فشاں مِری خاک میں
اُسی آگ کا
کوئی اَن بُجھا سا نشان ہے، تری خاک میں!
اسی خاکداں میں وہ خواب ہے
جسے شکل دینے کے واسطے
یہ جو شش جہات کا کھیل ہے یہ رواں ہُوا
اسی روشنی سے ’’مکاں‘‘ بنا‘ اسی روشنی سے ’’زماں‘‘ ہُوا
یہ جو ہر گُماں کا یقین ہے!
وہ جو ہر یقیں کا گمان تھا!
اسی داستاں کا بیان تھا!

(امجد اسلام امجد)​
 
Top