ہم کتاب عشق کے ورقے سنبھا لیں کب تلک

غزل

یوں تیری محفل میں آکے ہم پشیماں ہو گئے
چاک جو ادھڑے تو دل کے زخم عریاں ہو گئے

ہم کتاب عشق کے ورقے سنبھا لیں کب تلک
داستاں کے باب نذر طاق نسیاں ہو گئے

ہم اضافت ہیں تمہاری زندگی کے لفظ پر
ہم تمھارے اسم سے جڑ کر نمایاں ہو گئے

تم کو کیا لکھا ردیف و قافیے سجنے لگے
لفظ لفظوں سے ملے مل کر غزل خواں ہو گئے

اس نے میرا نام دھیرے سےپکارا یوں لگا
درد دل کے واسطے دو لفظ درماں ہو گئے

اب وصال یار کی ہم کو نہیں ہے آرزو
گلشن ہستی کے سب منظر بیاباں ہو گئے

وہ ہمارے پاس بیٹھے زندگی ہنسنے لگی
گل سے ہم منسوب ہو کر گل بداماں ہو گئے


کافری کے شوق نے کافر بنا ڈالا انہیں
ہم مسلمانی کے پردے میں مسلماں ہو گئے

وہ خدائی کی طلب میں آسماں چھونے لگے
ہم زمین پر ٹیک کر ماتھے کو انساں ہو گئے

کیوں کریں شکووں گلوں میں وقت کو برباد ہم
ہم سے ملنے آ گئے وہ ہم تو شاداں ہو گئے

میں نے رخصت کی اجازت ان سے جو مانگی حسیب
وہ میرے جانے کا سن کر کیوں پریشاں ہو گئے

حسیب احمد حسیب
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ !

خوبصورت غزل ہے۔

آپ کے کلام میں نمایاں شے ندرتِ بیان ہے اور یہ بڑی نایاب شے ہے۔

بہت سی داد قبول کیجے۔
 
Top