ہم ایسی کٹھ پتلیاں ہیں ۔۔۔

شاعر بدنام

محفلین
ہم انسان ہیں !
لے کر تو کچھ آئے نہیں تھے نہ کچھ لے کر جائیں گے ہی ۔۔۔ لیکن ایک دوسرے کو کچھ دے لینے میں کیوں بخل سے کام لیں ؟
اسی لئے تو میں تم سے آج صرف محبت کی باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ فی الوقت تم بھی اس حقیقت کو بھول جاؤ۔ میں بھی اس حقیقت سے آنکھیں چرا لوں کہ ہم اپنی محبت کی باتیں ختم کر لیں تو مجھے دانے دانے کی تلاش میں سرگرداں ہو جانا ہے اور تمہیں ننھوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر روٹیاں بیلنی ہیں اور انہیں جھوٹی سچی کہانیاں سنانی ہیں کہ پرستان کا شہزادہ ٹھنڈے میٹھے پانی کو دودھ سمجھ کر پی جاتا تھا۔
مجھے تو تم سے صرف اتنا کہنا تھا کہ نہ تم کو مجھ سے نفرت ہے نہ مجھے تم سے ۔۔۔۔۔ بات اتنی سی ہے کہ تم میری چُپ کو پہچان لو ، میں تمہارے آنسوؤں کا راز جان لوں ۔۔۔ ہم ایسی کٹھ پتلیاں ہیں کہ جن کی ریشمی ڈوریاں ہمارے معاشرے نے اپنی انگلیوں پر لپیٹ رکھی ہیں ۔۔۔ لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ ان کٹھ پتلیوں کا ذہن ہے ، جذبہ ہے ، احساس ہے۔ اور جب تک یہ سب کچھ رہے گا نہ ہم مل جل کر خوش رہ سکیں گے نہ بچھڑ کر زندہ ۔۔۔ اس وقت تک جب تک کہ یہ ریشمی ڈوریاں کٹ نہیں جاتیں۔
میری چُپ سے تمہارے آنسوؤں تک جو راستہ جاتا ہے وہ ایک ایسا پُل صراط ہے کہ ہم پار اتر لیں تو پھر کوئی پرسش نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ تلوار کی دھار پر چلنا خشک آنسوؤں کے نیزے کی انی کو دل میں ترازو کر لینے سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔


// اقبال متین کے افسانے "میں بھی فسانہ تم بھی کہانی" سے ایک خوبصورت جذبات انگیز اقتباس
 
Top