گلشن کی تباہی کا الم کم تو نہیں ہے - زکی کیفی

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
گلشن کی تباہی کا الم کم تو نہیں ہے
دل خوں ہے مگر فرصتِ ماتم تو نہیں ہے

ڈر یہ ہے کہ مانوس نہ ہوجاؤں خزاں سے
معلوم ہے پھولوں کا یہ موسم تو نہیں ہے

یہ سچ ہے کہ ہر غم کو بھلا دے گا زمانہ
لیکن یہ کسی زخم کا مرھم تو نہیں ہے

خوش ہوں کہ میں چونکا ہوں کسی خواب سے لیکن
یا رب یہ کسی خواب کا عالم تو نہیں ہے

پھولوں کو صبا لاکھ گلستاں میں ہنسا لے
پھر بھی یہ علاجِ غمِ شبنم تو نہیں ہے

ڈھایا تو ہے غم نے مرا ایوانِ تمنا
بنیاد مگر غم کی بھی محکم تو نہیں ہے

تم اس کو سمجھنا ہی نہ چاہو تو نہ سمجھو
افسانہ غمِ عشق کا مبہم تو نہیں ہے

اظہارِ رضا لاکھ کرے حسن مگر پھر
دل کو ہے یہی ڈر کہ وہ برہم تو نہیں ہے

اے ہمسفرو مجھ کو سرِ راہ بٹھا دو
رستہ ہی تکوں،پاؤں میں اب دم تو نہیں ہے

سو شمع جلائیں گے اگر ایک بجھے گی
فانوسِ وفا آج بھی مدھم تو نہیں ہے

طوفانِ بلا سر سے گزرتے ہی رہے ہیں
زخمی ہے مگر آج بھی سر خم تو نہیں ہے

کیفی جو چلے گا اسے ٹھوکر بھی لگے گی
لغزش سے بری فطرتِ آدم تو نہیں ہے

زکی کیفی
 

اسد قریشی

محفلین

اظہارِ رضا لاکھ کرے حسن مگر پھر

دل کو ہے یہی ڈر کہ وہ برہم تو نہیں ہے
اے ہمسفرو مجھ کو سرِ راہ بٹھا دو
رستہ ہی تکوں،پاؤں میں اب دم تو نہیں ہے
واہ! بہت عمدہ، خوبصورت انتخاب
 
Top