گرمئ شہر ِ ضرورت سے پگھل جاؤ گے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
گرمئ شہر ِ ضرورت سے پگھل جاؤ گے
نہیں بدلے ہو ابھی تک تو بدل جاؤ گے

اس چمکتے ہوئے دن کو نہ سمجھنا محفوظ
اپنے سائے سے بھی نکلو گے تو جل جاؤ گے

گردش ِ وقت ہے آتی ہے سبھی کے سر پر
وقت گزرے گا تو اس سے بھی نکل جاؤ گے

یہ محبت کے مقامات ہیں اے جان ِ نظر
اتنا محتاط چلو گے تو پھسل جاؤ گے

اپنی تابش کو زمینوں سے نہ کرنا مشروط
ورنہ سورج کی طرح شام کو ڈھل جاؤ گے

گر رہا ہوں میں مسلسل ہی ،مگر جانے کیوں
کوئی اندر سے یہ کہتا ہے سنبھل جاؤ گے

تھام کر ہاتھ چلو تم بھی ظہیر اپنوں کا
ورنہ اِس بھیڑ میں غیروں سے بدل جاؤ گے

ظہیراحمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۳

ٹیگ: سید عاطف علی کاشف اختر محمد تابش صدیقی فاتح
 
Top