کیمیا گر

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کیمیا گر
پائلوکویلھو کے شہکار ناول ”الکیمسٹ“ کا اردو ترجمہ سے اقتباس​
کیمیا گر نے ایک کتاب کا اٹھایا۔ قافلے میں کوئی اسے لیتا اآیا تھا۔ اُس کی ورق گردانی کے دوران نرگسیت کے متعلق ایک کہانی اس کی نظر سے گزری۔
کیمیا گر نرگس کی داستان جانتا تھا۔ ایک نوجوان اجھیل کنارے جھک کر پانی میں اپنا عکس دیکھتا رہتا اور اپنی خوبصورتی کے متعلق خیالات میں ڈوبا رہتا ۔ وہ اپنے اآپ سے اس قدر مسحور تھا کہ ایک صبح جھیل میں گر کر ڈوب گیا۔ وہ جہاں گرا ، وہیں پر ایک پھول نمبر دار ہوا اسے نرگس کہتے تھے۔ مگر مصنف نے اسی انداز میں کہانی کا اختتام نہیں کیا۔
اس نے کہا کہ جب نرگس کی موت واقع ہوئی تو جنگلوں کی دیویاں اُتریں۔ انھوں نے دیکھا کہ جھیل کے تازہ پانی نمکین اآنسوؤں کی طرح تھے۔
”تم کیوں آنسو بہاتی ہو؟“دیویوں نے پوچھا۔
”میں نرگس کے لیے روت ہوں“ جھیل نے جواب دیا۔
”آہ ، یہ تو کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ تم نرگس کے لیے روتی ہو۔۔۔“انھوں نے کہا ”اگرچہ ہم نے جنگلوں میں اس کا ہمیشہ پیچھا کیا، مگر صرف تم اپنی قربت کی وجہ سے اس کے حسن کے متعلق بہتر انداز میں سوچ سکتی ہو۔“
”مگر کیا نرگس حسین تھا؟“جھیل نے پوچھا۔
”تم سے بہتر کون جان سکتا ہے۔“ دیویوں نے حیرانی سے کہا۔”آخر وہ اپنا سراپا دیکھنے کے لیے تمہارے ہی کناروں پر جھکا کرتا تھا۔“
جھیل کچھ دیر خاموش رہی آخر اس نے کہا”میں نرگس کے لیے روت ہوں۔ کیا وہ اتنا حسیں تھا؟ میں نے کبھی اس کا اندازہ ہی نہ لگایا۔ میں تو اس لیے روتی ہوں کہ وہ میرے کناروں پر جھک کر پانیوں میں دیکھتا تھا۔ اس کی آنکھوں کی گہرائیوں میں مجھے اپنے حسن کا عکس دِکھائی دیتا۔“
”کتنی پیاری کہانی ہے۔“ کیمیاگرنے سوچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​


 

طالوت

محفلین
یہ جو اپنی صورت کو ہی پانی میں تکتا رہتا تھا کیا اس کا نام نرگس تھا ، مجھے تو شاید کسی نے بتایا وہ گل بکاولی تھا ۔۔۔ کیا ہے یہ داستان کوئی صحیح طور پر رہنمائی کرے گا ؟؟؟
وسلام
 
Top