کیایہ سچ ہے؟

ابن جمال

محفلین
کیایہ سچ ہے؟

--------------------------------------------------------------------------------

"جب دو سائنس دانوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے تو وہ اختلاف کو دور کرنے کے لئے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔ جس کے حق میں ٹھوس اور واضح ثبوت مل جاتے ہیں، وہ راست قرار پاتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ سائنس دان ہونے کے حیثیت سے ان دونوں میں سے کوئی بھی خود کو بے خطا خیال نہیں کرتا۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہوسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف جب دو مذہبی علماء میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو وہ دونوں اپنے آپ کو مبرا عن الخطا خیال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی۔ دونوں میں سے ہر ایک کو یقین ہوتا ہے کہ صرف وہی راستی پر ہے۔ لہٰذا ان کے درمیان فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ بس یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ دونوں کو یقین ہوتا ہے کہ دوسرا نہ صرف غلطی پر ہے ، بلکہ راہ حق سے ہٹ جانے کے باعث گناہ گار بھی ہے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور نظری مسائل حل کرنے کے لئے دنگا فساد تک نوبت جاپہنچتی ہے۔" (برٹرینڈ رسل: لوگوں کو سوچنے دو، اردو ترجمہ از قاضی جاوید، ص 86 )
یہ اقتباس مبیشر نذیر کے ایک مضمون سے لیاگیاہے۔جوہم سب کیلئے دعوت فکر ہے کہ کہیں ہم بھی اس کے مصداق تونہیں ہیں۔
 

arifkarim

معطل
جی ہاں بالکل سچ ہے۔
انسان تو ہے ہی غلطیوں کا پتلا۔ یہودی و عیسائی علما کا یہی حال 1500 سال تک یورپ کو لے ڈوبا تھا۔ یہاں تک کہ وہاں کی سعید روحوں نے علما کیساتھ بغاوت کرکے وہ ترقیات حاصل کیں جنکا پھل آجکل کے مسلمان بھی پا رہے ہیں۔ اسکے باوجود اپنے علما سے چپکے ہوئے ہیں۔
 

سویدا

محفلین
ہاں یہ سچ تو ہے مگر ادھورا سچ

ایک عالم جس کی یہ سوچ ہو کہ وہ غلطیوں‌سے پاک اور مبرا ہے تو درحقیقت وہ عالم ہی نہیں‌بلکہ جاہل کہلانے کے زیادہ مستحق ہے

باقی یہ انسان کی نفسیات ہے کہ وہ اپنے آپ کو صحیح اور سامنے والے کو غلط سمجھتا ہے

لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا واقعی سانئس دانوں‌میں‌اب بھی ایسا ہی ہے ؟

کیہونکہ بریٹنڈرسل کی مذکورہ بالا کتاب کافی پرانی ہے

اور ہاں‌ایک اہم بات اور منصوصی احکامات میں‌اختلاف کرنا ممکن ہی نہیں‌ہے اور نہ کوئی اختلاف کرسکتا ہے

منصوصی احکامات سے مراد وہ احکام جو قرآن وحدیث‌میں‌صراحت کے ساتھ مذکور ہیں

ہاں‌وہ احکام جو قرآن وسنت میں‌ذکر نہیں‌بلکہ اجتہادی مسائل ہیں‌تو ان میں‌اختلاف ہونا ضروری ہے اور حدیث مبارکہ کی رو سے اجتہادی مسائل میں‌عالم صحیح‌ہو اس کے لیے دو اجر ہیں‌اور جو اجتہاد میں‌غلطی پر بھی ہو تو اس کے لیے ایک اجر

اصل یہ ہے کہ ہماری یہ سوچ یہ غلط ہے کہ اختلاف ہی نہ ہو اختلاف ہو لیکن حدود اور آداب کے ساتھ رہتے ہوئے اس کائنات کا حسن اختلاف میں‌ہی ہے

اختلاف کو ذاتیات پر نہیں‌لے جانا چاہیے
 
Top