کہنا بڑوں کا مانو

علی اور ارم دونوں بھائی بہن تھے۔ علی چھٹی جماعت میں اور ارم چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔ وہ دونوں پیدل اسکول کو جاتے تھے۔ ان کا اسکول، ان کے گھر سے کچھ ہی فاصلہ پر تھا۔ صبح کو، ان کے ابو انہیں اسکول چھوڑنے جاتے اور دوپہر میں ان کی امی انہیں واپس گھر لے آتیں۔
علی اور ارم کو ان کے امی ابو نے سمجھایا تھا کہ اگر کبھی اسکول کی چھٹی ہونے کے بعد تمہاری امی تمہیں لینے نہ آئیں تو اسکول ہی میں رُکے رہنا اور اکیلے مت نکلنا لیکن علی اور ارم نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔
ایک دن ایسا ہوا کہ ان کی امی کو کوئی ضروری کام پڑگیا جس کی وجہ سے انہیں تھوڑی دیر ہوگئی۔ علی اور ارم نے اپنی امی کا انتظار نہ کیا اور سوچا کہ گھر تو قریب ہی ہے۔ وہ دونوں اکیلے ہی اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں ایک سڑک تھی۔ انہوں نے گاڑیوں کو دیکھے بغیر سڑک پار کرنا شروع کردی۔ اچانک ایک شور اٹھا۔ ایک گاڑی سے ارم کی ٹکر ہوتے ہوتے بچی تھی۔ گاڑی کو اتنا قریب دیکھ کر وہ دونوں بچے خوف زدہ ہوگئے۔ ان کی امی بھی اسی وقت وہاں پہنچ گئیں۔ وہ اپنے بچوں کو گھر لے آئیں اور بات نہ ماننے پر بہت ڈانٹا۔
شام کو جب ابو گھر آئے تو علی اور ارم کی امی نے ساری بات ان کے ابو کو بتائی۔ ابو نے علی اور ارم کو پاس بٹھایا اور پیار سے سمجھایا کہ: "بچو! جو اپنے والدین کا کہنا نہیں مانتے، انہیں نقصان ہوتا ہے۔ والدین ہمیشہ ہمارے فائدے کی بات بتاتے ہیں۔"
پھر ابو نے ان کو سڑک پار کرنے کا اصول سمجھایا کہ: "سڑک پار کرتے وقت دونوں طرف دیکھنا چاہئے اور جب گاڑیاں بہت دور ہوں تب سڑک پار کرنی چاہئے۔ بلکہ چھوٹے بچوں کو چاہئے کہ وہ وہاں پر کسی بڑے سے کہہ دیں کہ ان کو سڑک پار کروادے۔"
علی اور ارم کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔ پیارے بچو! ہمیں بھی چاہئے کہ اپنے بڑوں کا کہنا مانیں اور سڑک پار کرتے وقت احتیاط کریں۔
 
Top