کہاں ہو تم چلے آؤ

زبیر مرزا

محفلین
شاعر: بہزاد لکھنوی
گلوکارہ: شہناز بیگم

کہاں ہو تم چلے آؤ محبت کا تقاضا ہے
غمِ دنیا سے گھبرا کر تمہیں دل نے پکارا ہے

تمہاری بے رخی اک دن ہماری جان لے لے گی
قسم تم کو ذرا سوچو کہ دستورِ وفا کیا ہے

نجانے کس لیے دنیا کی نظریں پھر گئی ہم سے
تمہیں دیکھا، تمہیں چاہا، قصور اس کے سوا کیا ہے

نہ ہے فریاد ہونٹوں پر، نہ آنکھوں میں کوئی آنسو
زمانے سے ملا جو غم اسے گیتوں میں ڈھالا ہے
 
Top