ساجدتاج
محفلین
کچھ باتیں سمجھنے سے ہی سمجھ میں آتی ہیں
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ:۔
ایک بچہ آئس کریم شاپ پر گیا
اُس نے پوچھا کہ آئس کریم کا بڑا کپ کتنے کا ہے؟
ویٹر :۔ 15روپے کا
بچے نے اپنی جیب میںہاتھ ڈالا
اور پیسوں کو باہر نکال کر گننا شروع کر دیا
بعد میںاُس نے پوچھا کہ چھوٹا کپ کتنے کا ہے؟
ویٹر : 12 روپے کا
بچے نے چھوٹا آئس کپ لے لیا
جب بچہ شاپ سے چلا گیا تو
ویٹر اُس ٹیبل پر گیا جہاں بچہ بیٹھا آئس کھا رہا تھا
ویٹر نے جب کپ کی طرف دیکھا تو
اُس کی آنکھوں میںآنسو آگئے
کہ بچے میںکپ میں آئس کریم کے پیسے
اور
ساتھ میںتین روپے ٹپ دی ہوئی تھی۔
مطلب 12روپے کپ اور تین روپے ٹِپ
نوٹ
کبھی کبھی بڑی بڑی باتوں میںہمیں کوئی بات نظر نہیں آتی اور کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بہت بڑی بات چھپی ہوتی ہے۔ لیکن بات صرف نظر کی ہوتی ہے کہ ہم کس نظر سے اُسے دیکھتے ہیں۔ ہم نے کبھی اپنے ارد گرد دیکھا کہ کون مجبور ہے ؟ کون بے سہارا ہے ؟ کون ضرورت مند ہے ؟ کون مشکل ہے ؟ کیا ہم نے کبھی کسی کے پریشانی کم کرنے کی کوشش کی ہے ؟ کیا کبھی بھی کسی کے دکھ درد کو کم کرنے کی کوشش کی ہے ؟ نہیں آج ک دور میںہمیںایسا انسان ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کسی بات کو سمجھانے کے لیے ایسے واقعات بنائے جاتے ہیں تاکہ سامنے والے کو اپنی بات آسانی سے سمجھا سکے۔ ضرورت مند وہ نہیں جو سب کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے ، فقیر بن کر لوگوں سے پیسے کی ڈیمانڈ کرنا یہ لوگ ضرورت مند نہیں بلکہ کاروباری ہوتے ہیں اور ایسے لوگوںکو زکوتہ نہیںدینی چاہیے۔ ضرورت مند یا اصل زکاتہ کے حق دار وہ ہوتےہیںجو اپنے آپکو ظاہر نہیںکرتے کہ وہ کسی تکلیف میںہیں یا انہیںکسی چیز کی ضرورت ہے۔ ہمیںاس چیز کا خود خیال رکھنا چاہیے کہ آخر ہمارے ارد گرد ایسے کون سے لوگ ہیں جو کسی تکلیف میںمبتلا ہیں، یا کسی کو کوئی ضرورت ہے۔ یہ کہنے اور سننے میں شاید بہت چھوٹی باتیں لگیں لیکن یاد رکھیں ہمیں ان چیزوں کا حساب دینا پڑے گا دُنیا میںنا سہی آخرت میںسہی۔ کسی کے دکھ درد میںشریک ہونا ، کسی کی ضرورت پوری کرنا ، کسی کے کام میںہاتھ بٹانے میں جتنی خوشی اور اطمینان محسوس ہوتا ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے کہ جس نے کبھی کسی کی مشکل دور کی ہو۔
تحریر : ساجد تاج
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ:۔
ایک بچہ آئس کریم شاپ پر گیا
اُس نے پوچھا کہ آئس کریم کا بڑا کپ کتنے کا ہے؟
ویٹر :۔ 15روپے کا
بچے نے اپنی جیب میںہاتھ ڈالا
اور پیسوں کو باہر نکال کر گننا شروع کر دیا
بعد میںاُس نے پوچھا کہ چھوٹا کپ کتنے کا ہے؟
ویٹر : 12 روپے کا
بچے نے چھوٹا آئس کپ لے لیا
جب بچہ شاپ سے چلا گیا تو
ویٹر اُس ٹیبل پر گیا جہاں بچہ بیٹھا آئس کھا رہا تھا
ویٹر نے جب کپ کی طرف دیکھا تو
اُس کی آنکھوں میںآنسو آگئے
کہ بچے میںکپ میں آئس کریم کے پیسے
اور
ساتھ میںتین روپے ٹپ دی ہوئی تھی۔
مطلب 12روپے کپ اور تین روپے ٹِپ
نوٹ
کبھی کبھی بڑی بڑی باتوں میںہمیں کوئی بات نظر نہیں آتی اور کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بہت بڑی بات چھپی ہوتی ہے۔ لیکن بات صرف نظر کی ہوتی ہے کہ ہم کس نظر سے اُسے دیکھتے ہیں۔ ہم نے کبھی اپنے ارد گرد دیکھا کہ کون مجبور ہے ؟ کون بے سہارا ہے ؟ کون ضرورت مند ہے ؟ کون مشکل ہے ؟ کیا ہم نے کبھی کسی کے پریشانی کم کرنے کی کوشش کی ہے ؟ کیا کبھی بھی کسی کے دکھ درد کو کم کرنے کی کوشش کی ہے ؟ نہیں آج ک دور میںہمیںایسا انسان ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کسی بات کو سمجھانے کے لیے ایسے واقعات بنائے جاتے ہیں تاکہ سامنے والے کو اپنی بات آسانی سے سمجھا سکے۔ ضرورت مند وہ نہیں جو سب کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے ، فقیر بن کر لوگوں سے پیسے کی ڈیمانڈ کرنا یہ لوگ ضرورت مند نہیں بلکہ کاروباری ہوتے ہیں اور ایسے لوگوںکو زکوتہ نہیںدینی چاہیے۔ ضرورت مند یا اصل زکاتہ کے حق دار وہ ہوتےہیںجو اپنے آپکو ظاہر نہیںکرتے کہ وہ کسی تکلیف میںہیں یا انہیںکسی چیز کی ضرورت ہے۔ ہمیںاس چیز کا خود خیال رکھنا چاہیے کہ آخر ہمارے ارد گرد ایسے کون سے لوگ ہیں جو کسی تکلیف میںمبتلا ہیں، یا کسی کو کوئی ضرورت ہے۔ یہ کہنے اور سننے میں شاید بہت چھوٹی باتیں لگیں لیکن یاد رکھیں ہمیں ان چیزوں کا حساب دینا پڑے گا دُنیا میںنا سہی آخرت میںسہی۔ کسی کے دکھ درد میںشریک ہونا ، کسی کی ضرورت پوری کرنا ، کسی کے کام میںہاتھ بٹانے میں جتنی خوشی اور اطمینان محسوس ہوتا ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے کہ جس نے کبھی کسی کی مشکل دور کی ہو۔
تحریر : ساجد تاج