امجد اسلام امجد کوئی خواب دشتِ فراق میں سر ِشام چہرہ کشا ہوا ۔ امجد اسلام امجد

فرخ منظور

لائبریرین
کوئی خواب دشتِ فراق میں سر ِشام چہرہ کشا ہوا
مری چشم تر میں رکا نہیں کہ تھا رتجگوں کا ڈسا ہوا

مرے دل کو رکھتا ہے شادماں، مرے ہونٹ رکھتا ہے گل فشاں
وہی ایک لفظ جو آپ نے، مرے کان میں ہے کہا ہوا

ہے نگاہ میں مری آج تک، وہ نگاہ کوئی جھکی ہوئی
وہ جو دھیان تھا کسی دھیان میں، وہیں آج بھی ہے لگا ہوا

مرے رتجگوں کے فشار میں، مری خواہشوں کے غبار میں
وہی ایک وعدہ گلاب سا، سر ِنخل جاں ہے کھلا ہوا

تری چشم ِخوش کی پناہ میں، کسی خواب زار کی راہ میں
مرے غم کا چاند ٹھہر گیا، کہ تھا رات بھر کا تھکا ہوا

کسی دل کشا سی پکار سے، اسی ایک بادِبہار سے
کہیں برگ برگ نمو ملی ،کہیں زخم زخم ہرا ہوا

ترے شہرِعدل سے آج کیا، سبھی درد مند چلے گئے؟
نہیں کاغذی کوئی پیرہن، نہیں ہاتھ کوئی اٹھا ہوا

(امجد اسلام امجد)
 
Top