کشتی و بادبان ڈوب گئے - ریحان اعظمی

حسان خان

لائبریرین
کشتی و بادبان ڈوب گئے
یا زمیں آسمان ڈوب گئے
سب نے برسات کی دعا مانگی
پھر سبھی کے مکان ڈوب گئے
صرف اک آدمی کی غفلت سے
انگنت خاندان ڈوب گئے
عشق کے بیکراں سمندر میں
ہم بصد آن بان ڈوب گئے
اب کے سیلابِ کم نگاہی میں
منزلوں کے نشان ڈوب گئے
ہم بلندی پہ آ گئے لیکن
کتنے ہی بے زبان ڈوب گئے
ڈوب کر پار ہم کو جانا ہے
وہ یہ دے کر بیان ڈوب گئے
اب کے بارش میں بچ گئیں فصلیں
لیکن اب کے کسان ڈوب گئے
فرقہ و نسل کی وباء جو چلی
کس قدر نوجوان ڈوب گئے
قرض ہم پر زمیں کا تھا ریحان
ہم بھی دے کر لگان ڈوب گئے
(ریحان اعظمی)
 
Top