کرتا ہوں برقِ قہْر کا خُوگرجِگر کو میں --غزلِ رسا

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
(رسا)

کرتا ہوں برقِ قہْر کا خُوگرجِگر کو میں
چھُپ چھُپ کے دیکھتا ہوں کسی کی نظر کو میں

کردے اگر گُداز اِسے گرمئِ سُجود
کرلُوں جَبِیں میں جذْب تِرے سنگِ در کو میں

اُن کو یہ ڈر نہ آئے کہِیں آستاں پہ حرْف
مُجھ کو یہ ضِد، کہ رکھ کے اُٹھاؤں نہ سرکو میں

اللہ ! اپنی نعمتِ عُظمٰی کو پھیر لے
ذوقِ نظرنہیں، تو کروں کیا نظر کو میں

پَو پھوٹنے سے پہلے ہی دِل جَل بُجھا مِرا
کیا مُنہ دکھاؤں آج نسِیمِ سحر کو میں

کٹتی نہیں ہے راہِ مُصِیبَت کِسی طرح
خنْجَر مِلے توختْم کروں اِس سفرکو میں

آنکھوں میں کِھچ کے آگیا سب حسرتوں کا خُوں
کہیئے تو اب دِکھاؤں نظر کے اثر کو میں

لو صُحبَتِ شبانہ کی لذّت بھی مِٹ چکی
حسرت سے دیکھتا ہوں چراغِ سحر کو میں

چھوڑے تھے جس کی آس پہ دونوں جہاں رسا
پُوچھے وہی نہ بات تو جاؤں کِدھر کو میں


normal_post.png
 
Top