ڈیرہ غازی خان

ڈیرہ غازی خان
3506_70564492.jpg



مظفر گڑھ سے دو راستے ڈیرہ غازی خان کی طرف جاتے ہیں، ایک راستہ 125 میل اور دوسرا 70 میل ہے جو کہ غازی گھاٹ کی طرف جاتا ہے۔ دس میل کا راستہ دریائے سندھ میں سے گزرتا ہے۔ کہیں کہیں پانی کھڑا ہے جس پر کشتیوں کے پل بائے گئے ہیں۔ دریائے سندھ 1910 سے لے کر 1976 تک دو تین میل کے علاقے کو کھا گیا ہے۔ ڈیرہ دو تین میل پیچھے رہ گیا ہے۔ ڈی جی کے بذاتِ خود پنجاب میں ہے۔ اس کی ایک سرحد بلوچستان سے دوسری سندھ سے اور تیسری خیبر پختون خوا سے ملتی ہے اس لیے یہاں زیادہ تر پنجابی، بلوچی اور پٹھان آباد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پشتو، بلوچی اور سرائیکی تینوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لیکن ایک ایسی زبان بھی بولی جاتی ہے جس میں ان سب زبانوں کے لفظ موجود ہیں اور اسی طرح ثقافتی رنگ میں بھی سب علاقوں کے رنگ ملے ہوئے ہیں۔ یہاں ایک ایسے مکمل رنگ کا احساس ہوتا ہے جس کے تحت پاکستان کی ثقافت اور لوک ورثے کا امتزاج اور ہم آہنگی کو سمجھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں DGK ایک ایسا مرکز ہے جو کہ سچے اور صحیح پاکستانی کا اصل تصور پیش کرتا ہے یہ ایک ایسی تجربہ گاہ ہے جہاں سب علاقوں کے لوگ مل کر پاکستان کے Superman کا حلیہ بناتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ Mystical Traditions کے دو اہم دھارے بھی یہاں آکر مرکزیت اختیار کرلیتے ہیں۔ ہم جہاں بھی گئے اور جتنے بھی صوفی اور روحانی بزرگوں کے مزاروں پر سلام کیا۔ اُن کا یا تو براہِ راست تعلق سخی سرور سے تھا یا سخی سرور اُن کے علاقے سے گزرے۔ لہٰذا لوگوں کا تعلق کسی ایسے Mystic ہے جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح سخی سرور سے بنتا ہے چناںچہ یہ ظاہر ہوا کہ ہم سب یا پاکستان کے رہنے والے ہار کے دانوں کی طرح Mystic کے دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں۔ شاہ سلیمان کا مزار تونسہ شریف میں ہے لیکن بنوں اور کوہاٹ کے علاقوں سے بھی پٹھان آپ کے ہاں حاضری دینے آتے ہیں۔ اسی طرح خواجہ فرید کے ہاں بھی پاکستان کے ہر علاقے سے لوگ آتے ہیں۔ تو اندازہ یہ ہوتا ہے کہ ہم سب اپنے Mystic کی بدولت ایک قومی وحدت میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو ایک علاقے سے دودسرے علاقے میں ہجرت کرتے رہے تاکہ لوگوں کو تعلیم دیں۔ یہ تعلیم بھی ہمارے لوک ورثے کا اہم حصہ ہے، یہ تعلیم مذہب کے علاوہ انسانی قدروں پر بھی بحث کرتی ہے۔ یہاں کڑھائی کا کام بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ کام صرف عورتیں ہی کرتی ہیں لیکن اس کڑھائی پر بلوچی ٹانکے کا بہت اثر ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں کی کڑھائی پنجابی اور بلوچی کڑھائی کا خوب صورت امتزاج ہے تو بے جا نہ ہوگا… رنگوں کا مزاج بھی مِلا جُلا ہے۔ جندری یا خراد کا کام زیادہ تر قریبی کام جام پور میں ہوتا ہے لیکن خاص ڈیرہ غازی خان میں بھی کچھ گھرانے یہ کام کرتے ہیں۔ یہاں بچوں کے کھلونوں کی طرف بھی خاص توجہ دی جاتی ہے اور بچوں کا ریڑھا جس سے چلنا سیکھتے ہیں، بہت خوب اور عمدہ بنایا جاتا ہے۔ پہلے یہ ریڑھا پاکستان کے دُور دُور کے علاقوں میں بھی بھیجا جاتا تھا مگر جب سے واکر نے رواج پایا ہے یہ ریڑھا بہت کم جگہوں پر جاتا ہے۔ چھوٹا سنگار میز بھی بہت خوب صورت بنتا ہے۔ یہاں کے لیکر آرٹ میں جو رنگ اور ڈیزائن استعمال ہوتے ہیں وہ چنیوٹ کے لیکر آرٹ کی نسبت دھیمے اور ڈیزائن کھلا کھلا ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے چند میل پہاڑوں میں بلوچ قبائل آباد ہیں جہان تمُن سِسٹم ہے یہاں کے اہم قبائل میں لغاری، قیصرانی، مزار، کھوسے، تھرجانی اور مری بلوچ قابل ذکر ہیں۔ ان بلوچ قبائل کے اپنے رسم و رواج ہیں۔ جب کسی کی شادی ہوتی ہے تو عورتیں خوب صورت رنگ برنگے لباس پہن کر اُنٹوں پر بیٹھ جاتی ہیں اور قافلہ روانہ ہوتا ہے۔ اُنٹوں کی لمبی قطار اور اُن پر رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس بلوچ عورتیں… یوں لگتا ہے جیسے رنگوں کا فوراہ چھُوٹ رہا ہے۔
ربط
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2013-04-22/3506#.U8iottKSyUQ
 
Top