ڈھاکہ: منہدم عمارت کے فیکٹری مالکان گرفتار

130427055154_dhaka_factory_2.jpg

رانا پلازہ نامی اس آٹھ منزلہ عمارت میں حادثے کے وقت قریب تین ہزار افراد موجود تھے

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے نواحی علاقے میں تین روز قبل منہدم ہونے والی آٹھ منزلہ عمارت میں دو فیکٹری مالکان نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
محبوب الرحمن اور صمد عدنان دونوں فیکٹری مالکان کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عمارت میں شگاف آ جانے پر متنبہ کیے جانے کے بعد بھی انھوں نے اس عمارت میں کام کرنے والے اپنے ملازمین کو وہاں کام کرنے کے لیے مجبور کیا۔
حکام کے مطابق رانا پلازہ نامی اس عمارت کے گرنے سے کم از کم 323 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ عمارت بدھ کی صبح اس وقت گری تھی جب وہاں کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔
سنیچر کی صبح مزید پندرہ افراد کو اس میں سے زندہ نکالا گیا۔
امدادی کام کرنے والوں نے کہا تھا کہ انھوں نے کم از کم ایسے 50 افراد کی نشاندہی کر لی ہے جو تیسری منزل پر مختلف جگہوں پر پھنسے ہوئے اور زندہ ہیں۔
حفاظتی دستے نے ان لوگوں تک آکسیجن کے سلینڈر اور پانی پہنچانے کی کوشش کی ہے تاکہ انھیں وہاں سے نکالے جانے تک ان میں زندگی کی رمق باقی رہ سکے۔
یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جب وہ عمارت گری تھی تو اس وقت اس میں قریب 3000 افراد تھے جن میں سے اب تک 2200 لوگوں کو بچایا جا چکا ہے۔

130425174250_dhaka_collapse_304x171_reuters_nocredit.jpg

بنگلہ دیش میں عمارتوں کے منہدم ہونے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں

محبوب الرحمن اور صمد عدنان جو نیو ویو بٹن اور نیو ویو سٹائل فیکٹریوں کے مالکان ہیں نے صبح خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈھاکہ پولیس کی نائب سربراہ شیامی مکھرجی کا کہنا ہے کہ ان دونوں پر لاپرواہی برتنے کا الزام ہے۔
ان دونوں فیکٹری مالکان نے بدھ کو مبینہ طور پر عمارت میں شگاف نظر آنے کے باوجود اپنے سٹاف کو کام پر آنے کے لیے زور ڈالا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اس عمارت میں کپڑوں کی مزید تین فیکٹریاں تھیں۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے جمعہ کو ایوان نمائندگان سے کہا ’ اس حادثے کے ذمہ دار بطور خاص وہ مالکان جنھوں نے اپنے ملازمین پر کام کے لیے دباؤ ڈالا تھا انھیں سزا دی جائے گی‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو گا اسے ڈھونڈ نکالا جائے گا اور اسے سزا دی جائے گی۔
جمعہ کو قریب دس ہزار افراد نے اس حادثے کے خلاف مظاہرہ کیا اور عمارت کے مالکان کو گرفتار کرنے اور کپڑے کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالات کی بہتری کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین نے احتجاج کے دوران ڈھاکہ میں کئی عمارتوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا جبکہ پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس پھینکی اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔
بنگلہ دیش میں حفاظتی معیار سے غفلت کے نتیجے میں عمارتوں کے منہدم ہونے یا ان میں آتشزدگ کے واقعات اکثر پیش آتے رہتے ہیں۔
گزشتہ برس نومبر میں ڈھاکہ میں کپڑوں کی ایک فیکٹری میں آگ لگنے سے کم از کم 110 افراد مارے گئے تھے۔

بہ شکریہ بی بی سی اردو
 

حسان خان

لائبریرین
اس سے یاد آیا کہ کراچی میں جس کارخانے میں آگ لگی تھی، اُس کے مالک کو بھی تو شاید گرفتار کیا گیا تھا۔ اُس قصے کا کیا بنا؟
 
اس سے یاد آیا کہ کراچی میں جس کارخانے میں آگ لگی تھی، اُس کے مالک کو بھی تو شاید گرفتار کیا گیا تھا۔ اُس قصے کا کیا بنا؟
یہ تو کوئی کراچی والا ہی بہتر بتا سکتا ہے کیوں کہ ہمارے میڈیا کو تو تم جانتے ہی ہو کہ ہر خبر کو صرف اس وقت تک فالو کرتے ہیں جب تک وہ تازہ ہو:battingeyelashes:
 
130429022400_dhaka_survivors_304.jpg

ملبے سے لاشیں نکالنے اور دفنانے کے عمل کے دوران بدبو کی وجہ سے کئی امدادی کارکن بیمار پڑ گئے

بنگلہ دیش میں حکام کا کہنا ہے کہ اب دارالحکومت ڈھاکہ کے نواحی علاقے سوار میں منہدم ہونے والی آٹھ منزلہ عمارت کے ملبے سے کسی شخص کے زندہ ملنے کی کوئی امید نہیں ہے۔
گزشتہ بدھ کو اس عمارت کے انہدام سے اب تک 380 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
ادھر حکام نے فیکٹری کے مالک محمد سہیل رانا کو بھارتی سرحد کے قریب سے گرفتار کر کے ڈھاکہ پہنچا دیا ہے۔
امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب سے ملبہ اٹھانے کے لیے بھاری مشینری کا استعمال شروع ہوگیا ہے اور ملبہ ہٹانے کے لیے کرینوں اور بڑے ’کٹرز‘ کی مدد لی جا رہی ہے۔
اس سے قبل عمارت کے ملبے میں لوہا کاٹنے والے آلات سے اٹھنے والی چنگاریوں سے آگ بھڑک اٹھی تھی جس کے بعد ملبے میں پھنسے مزید لوگوں کو ڈھونڈ نکالنے کی امیدیں معدوم ہوگئی تھیں۔
یہ آگ عمارت کی تیسری منزل کے ملبے میں لگی جس سے امدادی کارروائیوں میں بھی خلل پڑا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ چونکہ اس عمارت میں ملبوسات تیار کرنے کے کارخانے تھے اس لیے ممکن ہے کہ ملبے میں موجود کپڑے نے آگ پکڑ لی ہو۔
جائے وقوع پر موجود بی بی سی کے امبراسن ایتھیراجن کا کہنا ہے کہ آگ پر قابو پا لیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ امدادی کارکن رات گئے تک ایک عورت کو بچانے کی کوششیں کرتے رہے لیکن ناکام رہے اور پھر بعدازاں اس کی ہلاکت کا اعلان کر دیا گیا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملبے سے لاشیں نکالنے اور دفنانے کے عمل کے دوران بدبو کی وجہ سے کئی امدادی کارکن بیمار پڑ گئے ہیں۔
اندازوں کے مطابق جب عمارت گری تو اس میں تین ہزار کے قریب افراد موجود تھے جن میں سے 2430 اس حادثے میں زخمی ہوئے تاہم یا تو وہ خود نکلنے میں کامیاب رہے یا انہیں نکال لیا گیا۔

130429022355_dhaka_survivors304.jpg

جب عمارت گری تو اس میں تین ہزار کے قریب افراد موجود تھے

پولیس کے مطابق گزشتہ بدھ کو سوار کے علاقے میں گرنے والی رانا پلازہ نامی اس عمارت کے ملبے تلے دب کر 380 افراد ہلاک ہوئے۔ان کے علاوہ سینکڑوں افراد کے تاحال لاپتا ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
فائر سروس کے ایک اعلیٰ اہلکار اکرم حسین کا کہنا ہے کہ لا پتہ لوگوں کی تعداد کے سرکاری اعدادو شمار نہیں لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ ہر لمحے ان کے بچنے کی امیدیں کم سے کم ہوتی جا رہی ہیں۔
اس حادثے میں لاپتا ہونے والے افراد کے لواحقین کی بڑی تعداد اب بھی جائے وقوعہ پر موجود ہے۔
ادھر اتوار کی شام بنگلہ دیش کی حکومت کے وزیر جہانگیر کبیر نانک نے جائے وقوعہ پر آ کر عمارت کے مالک محمد سہیل رانا کی گرفتاری کا اعلان کیا۔
سہیل رانا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ برسراقتدار جماعت عوامی لیگ کے یوتھ ونگ کے رہنما ہیں۔ انہیں بھارت کی ریاست مغربی بنگال کی سرحد کے قریب بیناپول کے علاقے سے گرفتار کیا گیا۔
بنگلہ دیشی ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناظر میں انہیں ہتھکڑیاں لگا کر ہیلی کاپٹر کی مدد سے ڈھاکہ لاتے دکھایا گیا ہے۔
سہیل رانا کو گرفتار کرنے والی ٹیم کے رکن مخلص الرحمان نے بتایا کہ ’وہ مختلف مقامات پر چھپا رہا اور بار بار اپنی جگہ بدلتا رہا۔ وہ شہر سے باہر دو سے تین اضلاع میں رہا اور پھر بھارت کی سرحد کے قریب پہنچ گیا اور اس بات کا امکان تھا کہ وہ بھارت فرار ہو جاتا۔‘

130429043143_suhail_rana_dhaka.jpg

سہیل رانا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ برسراقتدار جماعت عوامی لیگ کے یوتھ ونگ کے رہنما ہیں

انہوں نے کہا کہ ’اطلاع ملنے پر ہم بذریعہ ہیلی کاپٹر جیسور پہنچے اور اسے بیناپول کے چیک پوائنٹ سے حراست میں لیا گیا۔‘
اس سے قبل بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے اعلان کے بعد کہ اس حادثے کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی، رانا پلازہ نامی عمارت میں قائم تین فیکٹریوں کے مالکان اور دو انجینیئروں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
ان دونوں انجینيئروں پر الزام ہے کہ انھوں نے اس عمارت گرنے سے ایک دن قبل اسے محفوظ قرار دیا تھا۔ ان دونوں پر لاپرواہی برتنے کا الزام ہے۔
بنگلہ دیش میں حفاظتی معیار سے غفلت کے نتیجے میں عمارتوں کے منہدم ہونے یا ان میں آتشزدگ کے واقعات اکثر پیش آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ برس نومبر میں ڈھاکہ میں کپڑوں کی ایک فیکٹری میں آگ لگنے سے کم از کم 110 افراد مارے گئے تھے۔

بہ شکریہ بی بی سی اردو
 
Top