ڈرونز یا پرندے۔ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

یہ کوئی پرندہ ہے، نہیں نہیں یہ کوئی جہاز ہے۔ یہ رہا دوسرا۔ دو ، دو جہاز ؟ ناممکن! ۔ کہیں یہ چین کی جانب سے چھوڑے گئے غیر انسانی ڈرونز تو نہیں۔ ارے یہ تو کل کی طرح آج بھی موجود ہیں آسمان پر اور ہمارے مورچوں کی نگرانی کررہے ہیں۔ سنو! ان کا روزنامچہ تیار کرو۔ اب تک تو ہم انہیں پچھلے چھ ماہ میں کوئی تین سو بیس مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔ یوں ہندوستانی افواج ایک عرصے تک مخمصے میں رہیں۔


چینی دراندازوں کا خوف ہندوستان کی عظیم الشان افواج کو جو لداخ میں آسمان پر نظر جمائے بیٹھی تھیں، سیارہ مشتری اور سیارہ زحل کو چینی جاسوس ڈرون سمجھنے پر مجبور کرگیا۔ وہ تو خیر گزری جب ہندوستان کی افواج نے آسٹرو فزکس کے مرکز واقع بنگلور سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا گیا کہ وہ پچھلے دو مہینوں سے جن دو آسمانی روشنیوں کو چینی شر پسند حکومت کی جانب سے چھوڑے گئے جاسوسی ڈرون سمجھ رہے تھے، وہ دراصل سیارہ زحل اور سیارہ مشتری ہیں ، ورنہ اب تک یونانی دیومالا اپنے دو دیوتاؤں یعنی دیوتا جوپیٹر اور حسن کی دیوی زہرہ سے محروم ہوگئی ہوتی۔ ہندوستانی فوج ظفر موج نے یہ ضروری سمجھا کہ احتیاط کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چینی حکومت کی جانب سے چھوڑے گئے ان شریر ڈرونوں کو فوری اور بغیر کسی اشتعال کے حملہ کرکے تباہ کرنے کے بجائے پہلے حکام ِ بالا سے اجازت لے لی جائے۔

چونکہ یہ دونوں ڈرونز لداخ سیکٹر میں گزشتہ چھ ماہ سے نظر آرہے تھے اور فوج کے روزنامچے میں اس واقعے کے لگ بھگ تین سو بیس شواہد موجود تھے، حکامِ بالا نے بنگلور کے اسٹرو فزکس سنٹر سے رابطہ کیا اور وہاں سے دوعدد سائنسدان اس واقعے کی تحقیقات کے لیے لداخ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ہندی افواج کی اس جذباتیت کے پیچھے یہ خطرہ کارفرماتھا کہ چینی حکومتی شرپسند بغیر انسان کے ڈرونز کی مدد سے لداخ کے علاقے میں درآتے ہیں اور اس علاقے کا فضائی جائزہ لے کر چلے جاتے ہیں۔ادھر لداخ ہی میں اس علاقے سے کوئی ڈیڑھ سو کلومیٹر دور دنیا کی سب سے اونچی دوربین نصب ہے جو آسمان کے مشاہدے کے لیے لگائی گئی ہے۔ اب یہ طے کرنا سب سے زیادہ ضروری تھا کہ یہ روشنیاں زمینی ہیں یا پھر آسمانی۔

پہلے تو خلائی تحقیقات کے مرکز بنگلور نے فوج کو مشورہ دیا کہ وہ کسی حساس آلے کی مددسے ان یو ایف اوز( اَن آئیڈنٹی فائڈ فلائینگ آبجیکٹس) کا مشاہدہ کریں اور ان کا پوائینٹ نمبر چار ہزار سات سو پندرہ( جائے وقوعہ) سے افقی اور عمودی زاویئے ماپ کر انہیں بتائیں۔ جواب خاصا حیران کن تھا اور فوجوں کی امیدوں پر پانی پھیر گیا۔ بعد میں جب دو سائینس دانوں نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر ان بد ترین خدشات کو درست ثابت کیا کہ یہ دونوں روشنیاں پرندے، جہاز یا چینی ڈرون نہیں بلکہ حقیقت میں سیارہ زحل اور سیارہ مشتری ہیں تو مت پوچھیے آگے کیا ہوا۔

مآخذ:
  1. ہندوستان نے خیال کیا کہ یہ زہرہ اور جوپیٹر حقیقت میں چینی ڈرونز ہیں۔
  2. جوپیٹر کی قسم! چین کے جاسوس طیارے ہماری سرزمین پر!
 

شمشاد

لائبریرین
بڑا ملک ہے، بہت زیادہ آبادی ہے، بہت بڑی جمہوریت ہے تو کوڑی بھی تو بہت دور کی لائے تھےناں۔
 
شکر ہے انہوں نے فائر کر کے تباہ نہیں کر دیے ورنہ اتنے ساری کتب کا کیا ہوتا جن میں نظامِ شمسی کے 9 سیاروں کا اور پھر 10 سیاروں کا اور اب پھر 9 سیاروں کا تذکرہ ہے تو پھر سے 7 سیاروں کا لکھنا پڑتا۔
 
Top