جون ایلیا ڈاکٹر عبدالحق کے ساتھ ایک شام - جون ایلیا

حسان خان

لائبریرین
ہیلو!
جی! کون صاحب؟
السلام علیکم! کہیے حضور مزاج بخیر!
اوہو، نجمی صاحب! سرکار کی دعائیں ہیں، اور فرمائیے کیا حکم ہے؟
کیا کر رہے ہیں آپ اس وقت؟
بس وہی کائنات کی باتیں۔ ایک شعر سن لیجئے!
ان کو دیکھا کہ گفتگو کر لی​
ایک شے ہے تجلی و آواز​
سبحان اللہ! آواز کے ساتھ ساتھ آپ کو تجلی کی زحمت بھی دے رہا ہوں۔​
تشریف لا رہے ہیں کیا؟​
جی ہاں! اس وقت ڈاکٹر عبدالحق کے یہاں چلنا ہے، مولانا تنزیل بھی تشریف رکھتے ہیں، ہم آپ کی خدمت میں پہنچ رہے ہیں، آپ کو بھی چلنا ہے۔​
کتنی دیر میں؟​
بس دس پندرہ منٹ میں۔​
بہت اچھا، میں حاضر ہوں۔ السلام علیکم!​
رئیس صاحب نے مجھے حکم دیا کہ تیار ہو جاؤ! تھوڑی دیر میں مولانا تنزیل الرحمٰن صاحب اور نجمی تشریف لے آئے۔ اور یہ کاروانِ مستی و قلندری دفترِ انجمن ترقی اردو پاکستان کی سمت روانہ ہو گیا۔ بہتر ہے کہ ان دونوں حضرات کے بارے میں تبرکاً کچھ عرض کر دیا جائے۔ بطورِ خاص مولانا تنزیل صاحب کی شخصیت و ہیئت کا یہی اقتضا ہے کہ تبرکاً کی شرط ضرور لگا دی جائے۔ رہے نجمی صاحب میرٹھی تو ان کو دیکھتے ہوئے احتیاطاً کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ نجمی صاحب کی طویل، عریض اور عمیق شخصیت کو خوش اخلاقی، مروت، سادہ کاری، ادب پروری اور علم دوستی کی ایک ضخیم کتاب سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اور کتاب بھی مجلد آرٹ پیپر کا نفیس گردپوش، قیمت صرف خلوص، صرف انسانیت، پہلی نظر میں ان کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب ایکسپورٹ، امپورٹ قسم کے بزرگ ہیں۔۔۔ بزرگی بعقل است نہ بسال۔۔۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ضخامت و حجم کے اندر نہ جانے کتنی ادبی، تہذیبی اور انسانی نزاکتیں پوشیدہ ہیں، نجمی صاحب ایک نکتہ رس، صاحبِ نظر اور ایک برشتہ شاعر بھی ہیں۔ ان کا ایک شعر سنتے چلیے!​
جنوں کے خوف سے ہم نے پناہِ عقل ڈھونڈی تھی​
مگر پھر عقل ہی نے ہم کو دیوانہ بنا ڈالا!​
اور صحیح بات یہ ہے کہ ان کو دیوانہ بنانے کا فرض عقل ہی نے بڑے ہی خلوص، تپاک اور مرتبہ شناسی کے ساتھ انجام دیا ہے۔ اب جناب مولانا تنزیل الرحمٰن صاحب کو ملاحظہ کیجیے۔ موصوف جدید فارسی زبان و ادب کے سلسلے میں سند کی حیثیت رکھتے ہیں، غالباً اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتے جب تک فارسی کو خالص ایرانی لہجے میں ادا نہ کر دیں۔ کبھی کبھی اردو بھی فارسی ہی میں بولتے ہیں، پہلے ایک بہت ہی کامیاب اور قانون داں ادیب تھے اور اب ایک قادرالکلام اور نادرہ کار وکیل ہیں۔ ان کی خالص ادبی فطرت شاید اب تک یہ شعر گنگنگاتی ہوگی!​
گر نمی نالم بہ 'قانوں' برحقم​
زخمۂ بیگانہ بر تار آمدہ​
ہیئت و صورت بلکہ صرف صورت کے اعتبار سے موصوف کو کسی تبلیغی جماعت کا سرگرم اور باعمل کارکن کہا جا سکتا ہے۔۔۔ لیجیے انجمن ترقی اردو کا دفتر آگیا۔ ڈاکٹر عبدالحق صاحب دفتر کی چوتھی منزل میں رہتے ہیں۔ ہم لوگ آخری سیڑھی پر تھے، دیکھا کہ سامنے کمرے میں مولوی عبدالحق صاحب کھانا کھا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ہم لوگ کھانے میں‌ شریک نہیں‌ ہوئے۔ صحن میں کرسیاں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہیں بیٹھ گئے۔ مولوی صاحب صبح کے ناشتے کے بعد بس شام ہی کو چھ، سات بجے کے درمیان کھانا کھاتے ہیں۔ اگر ہم سرکاری محکمے کے کسی افسر یا عبدالغنی عبداسلام بمبئی والا قسم کے کسی صاحبِ خیر بزرگ سے ملنے جاتے تو نہ جانے کتنے واسطوں اور وسیلوں سے ہو کر گزرنا پڑتا، چپڑاسی کو ملاقاتی کارڈ پیش کیا جاتا۔ اور پھر نہ جانے کتنی دیر تک چچا غالب کے لطیف اور باریک نکتوں کی داد دینا پڑتی۔
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک​
لیکن اردو کے اس سب سے بڑے سرپرست کی خدمت میں پہنچنے کے لیے نہ کسی سیکریٹری کی خوشامد کرنا پڑی اور نہ کسی چپڑاسی کا منہ دیکھنا پڑا۔ معلوم نہیں کہ اس بات پر خوش ہونا چاہیے یا غمگین۔
مختصر سے انتظار کے بعد مولوی صاحب کھانے سے فارغ ہو کر تشریف لے آئے، اسی یا پچاسی سال کے مولوی عبدالحق ایک عہد، ایک مکتبہ فکر بلکہ ایک تاریخ ہیں۔ انیسویں صدی کی پیرانہ سالی نے انہیں پایا تھا، اور بیسویں صدی کا آخری نصف دور دھڑکتے ہوئے دل اور پریشان نگاہوں سے انکی طرف دیکھ رہا ہے۔۔۔ کہیں نظروں سے اوجھل نہ ہوجائیں۔ سفید براق بال۔ میانہ قد۔ آنکھوں میں‌ حالات شناسی کی متوجہ کرلینے والی چمک، اکہرا بدن، تن زیب کا کُرتا، علی گڑھ تراش کا پاجامہ۔ وہ بیٹھے تھے میں سوچ رہا تھا کہ زمانہ بیکراں اور لامحدود زمانہ، صرف لمحوں اور دقیقوں ہی سے تو عبارت ہے۔۔
مولوی صاحب گراں گوش ہیں۔ ہوگئے ہیں۔۔۔ جب کوئی سنتا ہی نہیں تو وہ بھی آخر کیا کریں۔۔۔ شہر کی رسم یہی ہے تو پھر اب یوں ہی سہی..
لیکن اب بھی دوسروں کی بات وہ مکرر کہے بغیر ہی سن لیتے ہیں اور وہ ناالتفات نہیں چاہتے۔ لیکن لوگوں کے یک گونہ التفات ہی نے ان کی سماعت میں زہر گھول دیا ہے۔ اس زمانے میں ان کو جن لہجوں سے نوازا گیا ہے، انکی داد دینے کے لیے جگر چاہیے۔ بعض لوگ اس حقیقت کو بالکل فراموش کر چکے ہیں کہ یہ عبدالحق ہی تھے جنہوں نے اردو کو ایک زندہ اور توانا تحریک بنا دیا۔ مگر آج اردو کی زندہ و توانا تحریک کا یہ عظیم بانی فقط 'ملامت ہائے بے درداں' سننے کے لیے رہ گیا ہے۔ تاریخ کا یہ عجیب و غریب المیہ ہے کہ تحریک کے بانی آخر میں اپنی تحریکوں ہی کے شکار ہوجاتے ہیں۔
رئیس صاحب نے کہا کہ آپ اس قوم کے سقراط ہیں، سقراط کو جامِ زہر پیش کیا گیا تھا اور آپکو زہرِ ملامت، مآلِ کار تاریخ آپ ہی کے حق میں فیصلہ صادر کرے گی۔
مولوی صاحب ایک اداس تبسم کے ساتھ خاموش ہوگئے اور پھر داغ کا یہ شعر پڑھنے لگے
ملاتے ہو اسی کو خاک میں‌جو دل سے ملتا ہے​
مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے​
اب ہمارے لیے چائے اور انکے لیے کافی آگئی تھی۔ دورانِ گفتگو میں‌ وہ لمحات بھی کتنے برگزیدہ اور منتخب ہوتے ہیں جب ہاتھ میں چائے کی پیالی ہو اور منہ میں سگریٹ۔ چائے اور مولانا ابوالکلام آزاد میں "صنعت ایہام تناسب" ہے ، چنانچہ بغیر کسی تمہید کے انکا ذکر شروع ہو گیا۔
بیاد آر حریفانِ بادہ پیما را!​
سوال کیا گیا کہ مولانا آزاد کی انشا پردازی کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا کہ آزاد کی نثر میں وہ متانت، خلوص اور انشائی مقصدیت نہیں پائی جاتی جو حالی کا خاصہ ہے، پھر علامہ شبلی کے بارے میں معلوم کیا گیا، لیکن وہ شبلی کو بھی حالی کے پائے کا نثر نگار ماننے کے لیے تیار نہیں، وہ حالی اسکول کے راسخ العقیدہ نمائندہ ہیں، اس لیے وہ مولانا آزاد کی حسبِ فرمائش اور 'بطورِ خاص' ملاحظہ ہو قسم کی عبارت پسند کر بھی نہیں سکتے، خصوصاً وہ عبارت جو۔۔۔ سید احمد المکنی بابی الکلام آزاد۔۔۔ نے لکھی ہو۔ مولانا آزاد کے ذکر میں‌ انہوں نے کہا کہ تقسیمِ ہند کے دوران میری رائے یہ تھی کہ اردو کے لیے ہندوستان ہی میں رہ کر کام کیا جائے کیوں کہ پاکستان میں اردو کے لیے زیادہ جدوجہد درکار نہیں ہے، اس ارادے کا ذکر مولانہ آزاد سے بھی کیا گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ:
"اگر آپ ہندوستان میں رہ کر اردو کے لیے کوئی تحریک چلائیں گے تو آپ کے مکان میں افیون اور چرس رکھوا کر آپکو گرفتار کرلیا جائے گا۔"
گفتگو اردو اور انجمن ترقی اردو کے موضوع پر ہی ہوتی رہی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ حالات سے بالکل بے دل اور مایوس نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا بھی کہ جو کام بعض موانع کی بنا پر پچھلے دس سال میں نہیں ہو سکا، وہ ایک سال میں ہو سکتا ہے اور یہ بات میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ رہا ہوں، مگر شرط یہ ہے کہ لوگ فرض شناسی، بے غرضی اور ہمت افزائی سے کام لیں۔ ان کی رائے ہے کہ اردو کے مترجمین اور مصنفین کو ادبیات کے بجائے سائنس اور دوسرے علوم پر زیادہ توجہ دینا چاہیے۔
آجکل مولوی صاحب گداختہ اور خوں شدہ قسم کے شعر بہت پسند کرتے ہیں ، رئیس صاحب کا ایک شعر پڑھنے لگے۔
جو ہماری برائیاں ہیں آج​
کل ہماری بھلائیاں ہوں گی​
وہ خود اس شعر کے صیح مصداق ہیں۔ یہ کتنی حسرت ناک صورتِ حال ہے کہ ہمارے معاشرے میں‌ بھلائیوں اور خوبیوں کے اعتراف کو کل پر اٹھا رکھا گیا ہے- آج کیا ہے؟ صرف طعنے، ملامتیں اور مخالفتیں۔۔۔۔ دیر ہا بعد ۔۔۔۔ جب تقدیرِ ایام پوری ہوجائے گی تو انہی عبدالحق کے یوم منائے جائیں گے، یادگار قائم ہوں گی اور یہی لوگ جو آج انکے ساتھ کوئی رعایت روا رکھنا نہیں چاہتے۔ کل انکے سجادہ نشین بن جائیں گے۔ غرض ہم لوگ بھی خوب ہیں، ہمیں مجاوری اور سجادہ نشینی کا فن تو خوب آتا ہے لیکن ایک معقول ایثار پیشہ اور مرتبہ شناس ہم عصر اور رفیقِ کار ثابت ہونے کی ہمارے اندر ذرا سی بھی صلاحیت نہیں۔ اور یہ بڑی افسوس ناک بات ہے ۔
بہرحال۔۔۔
یہ تھا اس شام کا تاثر یا تذکرہ جو انکے ساتھ بسر کی گئی۔

انشا، جولائی ۱۹۵۸
(ماخوذ از فرنود)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
۔۔۔
مولوی صاحب گراں گوش ہیں۔ ہوگئے ہیں۔۔۔ جب کوئی سنتا ہی نہیں تو وہ بھی آخر کیا کریں۔۔۔ شہر کی رسم یہی ہے تو پھر اب یوں ہی سہی..
لیکن اب بھی دوسروں کی بات وہ مکرر کہے بغیر ہی سن لیتے ہیں اور وہ ناالتفات نہیں چاہتے۔ لیکن لوگوں کے یک گونہ التفات ہی نے ان کی سماعت میں زہر گھول دیا ہے۔ اس زمانے میں ان کو جن لہجوں سے نوازا گیا ہے، انکی داد دینے کے لیے جگر چاہیے۔ بعض لوگ اس حقیقت کو بالکل فراموش کر چکے ہیں کہ یہ عبدالحق ہی تھے جنہوں نے اردو کو ایک زندہ اور توانا تحریک بنا دیا۔ مگر آج اردو کی زندہ و توانا تحریک کا یہ عظیم بانی فقط 'ملامت ہائے بے درداں' سننے کے لیے رہ گیا ہے۔ تاریخ کا یہ عجیب و غریب المیہ ہے کہ تحریک کے بانی آخر میں اپنی تحریکوں ہی کے شکار ہوجاتے ہیں۔

۔۔۔۔
جو ہماری برائیاں ہیں آج​
کل ہماری بھلائیاں ہوں گی​
وہ خود اس شعر کے صیح مصداق ہیں۔ یہ کتنی حسرت ناک صورتِ حال ہے کہ ہمارے معاشرے میں‌ بھلائیوں اور خوبیوں کے اعتراف کو کل پر اٹھا رکھا گیا ہے- آج کیا ہے؟ صرف طعنے، ملامتیں اور مخالفتیں۔۔۔ ۔ دیر ہا بعد ۔۔۔ ۔ جب تقدیرِ ایام پوری ہوجائے گی تو انہی عبدالحق کے یوم منائے جائیں گے، یادگار قائم ہوں گی اور یہی لوگ جو آج انکے ساتھ کوئی رعایت روا رکھنا نہیں چاہتے۔ کل انکے سجادہ نشین بن جائیں گے۔ غرض ہم لوگ بھی خوب ہیں، ہمیں مجاوری اور سجادہ نشینی کا فن تو خوب آتا ہے لیکن ایک معقول ایثار پیشہ اور مرتبہ شناس ہم عصر اور رفیقِ کار ثابت ہونے کی ہمارے اندر ذرا سی بھی صلاحیت نہیں۔ اور یہ بڑی افسوس ناک بات ہے ۔
بہرحال۔۔۔
یہ تھا اس شام کا تاثر یا تذکرہ جو انکے ساتھ بسر کی گئی۔

انشا، جولائی ۱۹۵۸
(ماخوذ از فرنود)
ستم ظریفی سی ستم ظریفی۔ :(

جزاک اللہ حسان خان ۔ عمدہ شیئرنگ کی ہے۔ :)
 
Top