امجد اسلام امجد چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلے

فصل گل آئی، پھر اک بار اسیران وفا
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے

ہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے

عمر گذری ہے شبِ تار میں آنکھیں ملتے
کس افق سے مرا خورشید نہ جانے نکلے!

کوئے قاتل میں چلے جیسے شہیدوں کا جلوس
خواب یوں بھیگتی آنکھوں کو سجانے نکلے

دل نے اک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محل
تو نے اک بات کہی، لاکھ فسانے نکلے

دشت تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
ہائے کیا لوگ مرا ساتھ نبھانے نکلے


میں نے امجد اسے بےواسطہ دیکھا ہی نہیں
وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلے

فصل گل آئی، پھر اک بار اسیران وفا
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے

ہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے

عمر گذری ہے شبِ تار میں آنکھیں ملتے
کس افق سے مرا خورشید نہ جانے نکلے!

کوئے قاتل میں چلے جیسے شہیدوں کا جلوس
خواب یوں بھیگتی آنکھوں کو سجانے نکلے

دل نے اک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محل
تو نے اک بات کہی، لاکھ فسانے نکلے

دشت تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
ہائے کیا لوگ مرا ساتھ نبھانے نکلے


میں نے امجد اسے بےواسطہ دیکھا ہی نہیں
وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے
واہ۔ خوبصورت غزل۔
شریک محفل کرنے کا شکریہ گل یاسمیں بہن۔
اللہ آپ کو خوش و خرم رکھے۔آمین۔
 
Top